Book - حدیث 3028

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ قَدْرِ حَصَى الرَّمْيِ حسن حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمَ النَّحْرِ، عِنْدَ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ، وَهُوَ رَاكِبٌ عَلَى بَغْلَةٍ، فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ، فَارْمُوا، بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ»

ترجمہ Book - حدیث 3028

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: جمرات کو کتنی بڑی کنکریاں ماری جائیں؟ حضرت سلیمان بن عمرو بن احوص ؓ اپنی والدہ(حضرت ام جندب ازدیہ ؓ)سے روایت کرتے ہیں‘انھوں نے فرمایا:میں نے قربانی کے دن نبیﷺ کو جمرۂ عقبہ(بڑے جمرے)کے پاس دیکھا جب کہ آپ خچر پر سوار تھے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’لوگو !جب تم جمرے پر کنکریاں مارو تو چھوٹی کنکریاں مارو۔‘‘
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔اور اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے ۔لیکن ان شواہد کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قراردیا ہے اور اس کی بابت سیر حاصل بحث کی ہے۔محققین کی اس بحث سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔لہذا مذ کورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پرقابل عمل اور قابل حجت ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے۔( الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد :٢٥/٤٩٥/٤٩٦وصحيح ابي داؤد ( مفصل) للالبانيرقم:١٧١٥) 2۔ عالم کو چاہیے کہ ہر مقام پر موقع کی مناسبت سے مسائل بیان کرے۔ 3۔حج کے دوران میں وعظ و نصیحت کرنا اور مسائل بیان کرنا درست ہے۔ 4۔وعظ یا مسائل بیان کرنے کے دوران میں مقام یا بلند چیز پر کھڑا ہونا مناسب ہےخاص طور پر جب کہ حاضرین کی تعداد زیادہ ہو تو منبر وغیرہ پر خطبہ دینا چاہیے۔منبر نہ ہو تو زمین پر کھڑے ہوکر یا سواری پر بھی خطاب کیا جاسکتا ہے۔ 5۔ منی میں تین ستون بنے ہوئے ہیں۔جنھیں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ہر ستون جمرہ کہلاتا ہے۔بڑے جمرے کا نام جمرة العقبةہے۔ مسجد خیف کی طرف سے آئیں تویہ سب آخر میں پڑتا ہے۔اور اگر طريق المشاة پر چلتے ہوئے مکہ سے منی پہنچیں تو یہ سب سے پہلے آتا ہے۔دس ذی الحجہ کو صرف اس کی رمی کی جاتی ہےنیز اس کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا سنت ہے۔درمیانی جمرے کو الحمرة الوسطي اور چھوٹے جمرے کو الجمرة الاولي کہتے ہیں۔مسجد خیف سے جمرات کی طرف آئیں تو سب سے پہلے یہی آتا ہےنیزدس ذوالحجہ کے سوا ایام میں سب سے پہلے اس کی رمی کی جاتی ہے۔ 4۔عام لوگ جمرات کو شیطان کہتے ہیں یہ درست نہیں۔یہاں کنکریاں مارنا حج کی عبادت کا ایک حصہ ہے اور عبادت کا ایک حصہ ہے اور عبادت کی جگہ کو شیطان کہنا انتہائی نامناسب ہے۔ 5۔جمرات پر بڑی بڑی کنکریاں پتھر یا جاتے مارنا سنت کے خلاف اور غلو ہے جس سے عمل کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔ 6۔کنکریوں کی مقدار کے لیے حدیث میں(حصي الخذف) کے الفاظ ہیںیعنی ایسی کنکریاں جنھیں دو انگلیوں میں پکڑ کر دور پھینکا جاسکےاس لیے ترجمہچھوٹی کنکریاں کیا گیاہے۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔اور اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے ۔لیکن ان شواہد کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قراردیا ہے اور اس کی بابت سیر حاصل بحث کی ہے۔محققین کی اس بحث سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔لہذا مذ کورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پرقابل عمل اور قابل حجت ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے۔( الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد :٢٥/٤٩٥/٤٩٦وصحيح ابي داؤد ( مفصل) للالبانيرقم:١٧١٥) 2۔ عالم کو چاہیے کہ ہر مقام پر موقع کی مناسبت سے مسائل بیان کرے۔ 3۔حج کے دوران میں وعظ و نصیحت کرنا اور مسائل بیان کرنا درست ہے۔ 4۔وعظ یا مسائل بیان کرنے کے دوران میں مقام یا بلند چیز پر کھڑا ہونا مناسب ہےخاص طور پر جب کہ حاضرین کی تعداد زیادہ ہو تو منبر وغیرہ پر خطبہ دینا چاہیے۔منبر نہ ہو تو زمین پر کھڑے ہوکر یا سواری پر بھی خطاب کیا جاسکتا ہے۔ 5۔ منی میں تین ستون بنے ہوئے ہیں۔جنھیں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ہر ستون جمرہ کہلاتا ہے۔بڑے جمرے کا نام جمرة العقبةہے۔ مسجد خیف کی طرف سے آئیں تویہ سب آخر میں پڑتا ہے۔اور اگر طريق المشاة پر چلتے ہوئے مکہ سے منی پہنچیں تو یہ سب سے پہلے آتا ہے۔دس ذی الحجہ کو صرف اس کی رمی کی جاتی ہےنیز اس کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا سنت ہے۔درمیانی جمرے کو الحمرة الوسطي اور چھوٹے جمرے کو الجمرة الاولي کہتے ہیں۔مسجد خیف سے جمرات کی طرف آئیں تو سب سے پہلے یہی آتا ہےنیزدس ذوالحجہ کے سوا ایام میں سب سے پہلے اس کی رمی کی جاتی ہے۔ 4۔عام لوگ جمرات کو شیطان کہتے ہیں یہ درست نہیں۔یہاں کنکریاں مارنا حج کی عبادت کا ایک حصہ ہے اور عبادت کا ایک حصہ ہے اور عبادت کی جگہ کو شیطان کہنا انتہائی نامناسب ہے۔ 5۔جمرات پر بڑی بڑی کنکریاں پتھر یا جاتے مارنا سنت کے خلاف اور غلو ہے جس سے عمل کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔ 6۔کنکریوں کی مقدار کے لیے حدیث میں(حصي الخذف) کے الفاظ ہیںیعنی ایسی کنکریاں جنھیں دو انگلیوں میں پکڑ کر دور پھینکا جاسکےاس لیے ترجمہچھوٹی کنکریاں کیا گیاہے۔