Book - حدیث 3025

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ مَنْ تَقَدَّمَ مِنْ جَمْعٍ لِرَمْيِ الْجِمَارِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، وَسُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُغَيْلِمَةَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، عَلَى حُمُرَاتٍ لَنَا مِنْ جَمْعٍ، فَجَعَلَ يَلْطَحُ، أَفْخَاذَنَا وَيَقُولُ: «أُبَيْنِيَّ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ» زَادَ سُفْيَانُ فِيهِ «وَلَا إِخَالُ أَحَدًا يَرْمِيهَا، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ»

ترجمہ Book - حدیث 3025

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: جمرات کی رمی کے لیے لوگوں سے پہلے مزدلفہ سے منی چلے جانا حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے‘ انھوں نے فرمایا:ہم عبد المطلب کے خاندان کے چند لڑکے مزدلفہ سے اپنی گدھیوں پر رسول اللہﷺ سے پہلے ہی روانہ ہو گئے۔رسول اللہﷺ نے ہماری رانوں پر ہاتھ مار کر فرمایا:’’میرے پیارے بیٹو!اس وقت تک جمرے پر کنکریاں نہ مارنا جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے۔‘‘ (راوئ حدیث)سفیان نے مذکورہ روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے:’’میرے خیال میں کوئی بھی سورج طلوع ہونے سے پہلے اسے کوئی رمی نہیں کرے گا۔‘‘
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےجبکہ دیگر محققین نےاسے صحیح قراردیا ہے۔اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔محققین کی تفصیلی بحث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہےلہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد بن حنبل :٣/٥-٤/٥-٥والارواء للالباني:٤/٢٧٦) 2۔رسول اللہ ﷺ نے دس ذی الحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کی تھی۔اس کے بعد کافی روشنی ہوجانے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہےپھر سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔(سنن ابن ماجهحديث:٣-٧٤)اور سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔(سنن ابن ماجهحديث:٣-٧٤) اور سورج طلوع ہونے کے بعد بڑے جمرے پر کنکریاں ماریں (سنن ابن ماجهحديث:٣-٧٤) بچوں پر شفقت کرنی چاہیےنیز انھیں دین کے مسائل نرمی سے سمجھانے چاہییں۔ 3۔بچے اورعورتیں صبح صادق ہونے سے پہلےمزدلفہ روانہ ہوسکتے ہیں اور فجر کی نماز منی میں پڑھ سکتے ہیں۔(سنن النسائی الحج باب تقديم النساء والبيان الي منازلهم يمزدلفةحديث :3035) 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےجبکہ دیگر محققین نےاسے صحیح قراردیا ہے۔اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔محققین کی تفصیلی بحث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہےلہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد بن حنبل :٣/٥-٤/٥-٥والارواء للالباني:٤/٢٧٦) 2۔رسول اللہ ﷺ نے دس ذی الحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کی تھی۔اس کے بعد کافی روشنی ہوجانے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہےپھر سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔(سنن ابن ماجهحديث:٣-٧٤)اور سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔(سنن ابن ماجهحديث:٣-٧٤) اور سورج طلوع ہونے کے بعد بڑے جمرے پر کنکریاں ماریں (سنن ابن ماجهحديث:٣-٧٤) بچوں پر شفقت کرنی چاہیےنیز انھیں دین کے مسائل نرمی سے سمجھانے چاہییں۔ 3۔بچے اورعورتیں صبح صادق ہونے سے پہلےمزدلفہ روانہ ہوسکتے ہیں اور فجر کی نماز منی میں پڑھ سکتے ہیں۔(سنن النسائی الحج باب تقديم النساء والبيان الي منازلهم يمزدلفةحديث :3035)