Book - حدیث 3022

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ الْوُقُوفِ بِجَمْعٍ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نُفِيضَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ، قَالَ: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ، كَيْمَا نُغِيرُ، وَكَانُوا لَا يُفِيضُونَ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَخَالَفَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَأَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ»

ترجمہ Book - حدیث 3022

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: مزدلفہ میں ٹھہرنا حضرت عمرو بن میمون ؓ سے روایت ہے ‘انھوں نے کہا:ہم نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہمراہ حج کیا۔جب ہم مزدلفہ سےواپس ہونے لگے تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا:مشرکین کہا کرتے تھے:اے ثبیر پہاڑ!روشن ہو جا تاکہ ہم(واپس منیٰ کی طرف)بھاگیں۔وہ اس وقت تک واپس نہیں لوٹتے تھے جب تک کہ سورج طلوع نہ ہوجا تا۔رسول اللہﷺ نے ان کے خلاف عمل کیا کہ سورج طلوع ہونےسے پہلے واپس چل دیے۔
تشریح : 1۔مزدلفہ سے سورج طلوع ہونے سے پہلے روانہ ہونا چاہیے مگر اس وقت جب کافی روشنی ہوجائے۔ 2۔مسلمانوں کی عبادتیں غیر مسلموں سے مختلف ہیں حتی کہ جوعبادتیں مشترک ہیں ان میں طریق کار میں فرق کردیا گیا ہے۔ 3۔جب مشترک عبادتیں بھی مختلف کردی گئیں ہیں تو ان تہواروں میں مسلمانوں کا شریک ہونا کیسے جائز ہوسکتا ہےجو خالص غیر مسلم اور رسمی تہواریں ہیں مثلاً: کرسمس نیا عیسوی سال نوروزبسنت دیوالی میلے ٹھیلے وغیرہ نیز شادی غمی کی وہ رسمیں جو غیر مسلموں میں رائج ہیں مثلاً سالگرہبرسیکسی کی وفات پر سیاہ لباس پہننا چراغاں منگنی اور شادی کے موقع پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط اور آپس میں ہنسی مذاق مہندی لیکر اس پر شمعیں جلانا اور عورتوں کا راستوں میں ناچتے ہوئے گاتے ہوئے مہندی لیکر چلنا۔یہ سب کافروں بالخصوص ہندؤں کی رسمیں ہیں جن کے متعلق دینی غیرت و حمیت رکھنے والا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ہاں!اگر دینی غیرت ہی ختم ہوجائے تو پھر اور بات ہے۔بنا بریں ایسی خرافات سےتمام مسلمانوں کو مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔ 1۔مزدلفہ سے سورج طلوع ہونے سے پہلے روانہ ہونا چاہیے مگر اس وقت جب کافی روشنی ہوجائے۔ 2۔مسلمانوں کی عبادتیں غیر مسلموں سے مختلف ہیں حتی کہ جوعبادتیں مشترک ہیں ان میں طریق کار میں فرق کردیا گیا ہے۔ 3۔جب مشترک عبادتیں بھی مختلف کردی گئیں ہیں تو ان تہواروں میں مسلمانوں کا شریک ہونا کیسے جائز ہوسکتا ہےجو خالص غیر مسلم اور رسمی تہواریں ہیں مثلاً: کرسمس نیا عیسوی سال نوروزبسنت دیوالی میلے ٹھیلے وغیرہ نیز شادی غمی کی وہ رسمیں جو غیر مسلموں میں رائج ہیں مثلاً سالگرہبرسیکسی کی وفات پر سیاہ لباس پہننا چراغاں منگنی اور شادی کے موقع پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط اور آپس میں ہنسی مذاق مہندی لیکر اس پر شمعیں جلانا اور عورتوں کا راستوں میں ناچتے ہوئے گاتے ہوئے مہندی لیکر چلنا۔یہ سب کافروں بالخصوص ہندؤں کی رسمیں ہیں جن کے متعلق دینی غیرت و حمیت رکھنے والا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ہاں!اگر دینی غیرت ہی ختم ہوجائے تو پھر اور بات ہے۔بنا بریں ایسی خرافات سےتمام مسلمانوں کو مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔