Book - حدیث 3000

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ الْعُمْرَةِ مِنَ التَّنْعِيمِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ نُوَافِي هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهْلِلْ فَلَوْلَا أَنِّي أَهْدَيْتُ لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ قَالَتْ فَكَانَ مِنْ الْقَوْمِ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ قَالَتْ فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ لَمْ أَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِي فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ دَعِي عُمْرَتَكِ وَانْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ قَالَتْ فَفَعَلْتُ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ وَقَدْ قَضَى اللَّهُ حَجَّنَا أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْدَفَنِي وَخَرَجَ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَحْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ فَقَضَى اللَّهُ حَجَّنَا وَعُمْرَتَنَا وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَا صَوْمٌ

ترجمہ Book - حدیث 3000

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: تنعیم سے (احرام باند ھ کے ) عمرہ کرنا حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے‘انھوں نے فرمایا:ہم لوگ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺکے ساتھ(مدینہ سے )روانہ ہوئے اور ذوالحجہ کا چاند چڑھنے ہی والا تھا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے جو شخص عمرے کا احرام باندھنا چاہے باندھ لے۔اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی عمرے کی نیت یے لبیک پکارتا۔‘‘ ام المؤمنین ؓا نے فرمایا :تو لوگوں میں سےکسی نے عمرے کا احرام باندھا‘اور کسی نے حج کا احرام باندھا۔میں عمرے کا احرام باندھنے والوں میں شامل تھی۔انھوں نے فرمایا:ہم لوگ روانہ ہوئے حتی ٰ کہ مکہ شریف پہنچ گئے۔ابھی میں حیض سے تھی کہ عرف کا دن آپہنچا۔اور میں نے ابھی عمرے کا احرام نہیں کھولا تھا ۔میں نے نبیﷺ سے صورت حال عرض کی تو آ پ نے فرمایا:’’اپنا عمرہ رہنے دو‘سر کے بال کھول کر کنگھی کر لو‘اور حج کا احرام باندھ لو۔‘‘ انھوں نے فرمایا:میں نے ایسے ہی کیا۔جب کی رات آئی اور اللہ تعا لیٰ نے ہمارا حج مکمل کر دیا تو رسول اللہ ﷺنے میرے ساتھ عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کو بھیجا۔وہ مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر تنعیم لے گئے۔(اور میں نے وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا۔)چنانچہ میں نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا۔اس طرح اللہ نے ہمارا حج اور عمرہ دونوں پورے کر دیے اور اس میں نہ قربانی تھی‘نہ صدقہ اور نہ روزے۔
تشریح : 1۔تنعیم ایک مقام ہے جو مکہ سے قریب ترین ہے۔آج کل اسے مسجد عائشہ کہتے ہیں۔ 2۔نبی اکرمﷺ تیرہ ذوالحجہ کو رمی جمرات سے فارغ ہوکر منی سے روانہ ہوئے اور وادی ابطح یعنی خیف بنی کنانہ میں ٹھہرے ۔اسی کو وادئ خصب بھی کہتے ہیں۔رسول اللہﷺ نے اس دن ظہر عصر مغرب اور عشاء کی نمازیں اسی مقام پر ادا کیں۔اور عشاء کے بعد کچھ آرام فرما کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئےاور طواف وداع ادا فرمایا۔(الرحیق المختوم ص:620) 3۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن عذر حیض کی وجہ سے عمرہ کیے بغیر حج کا احرام باندھنا پڑا۔اس طرح کی صورت حال میں عمرے کے اعمال اد ا کیے بغیر حج اور عمرہ دونوں ادا سمجھے جاتے ہیں۔ 4۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ وہ باقاعدہ عمرہ بھی ادا کریں چنانچہ رسول اللہﷺ نے انہیں ان کے بھائی کے ساتھ عمرے کے لیے بھیج دیا۔ یہ رسول اللہﷺ کا اپنی زوجہ محترمہ سے حسن سلوک کا اظہار تھا۔ 5۔تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں ہے۔رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر آکر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی (حائضہ) عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہےنہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے چھوٹا عمرہ قرار دیتے ہیں۔یہ رواج یا استدلال بے بنیاد ہے۔ 6۔حج کے بعد عمرہ کرنے سے حج تمتع نہیں بنتا بلکہ حج سے پہلے عمرہ کرنے سے حج تمتع بنتا ہے۔پہلے عمرے کی وجہ سے قربانی دی گئیاس دوسرے عمرے کی وجہ سے کوئی قربانی نہیں دی گئی۔نہ اس کا متبادل فدیہ روزون کی صورت میں ادا کیا گیا۔ 1۔تنعیم ایک مقام ہے جو مکہ سے قریب ترین ہے۔آج کل اسے مسجد عائشہ کہتے ہیں۔ 2۔نبی اکرمﷺ تیرہ ذوالحجہ کو رمی جمرات سے فارغ ہوکر منی سے روانہ ہوئے اور وادی ابطح یعنی خیف بنی کنانہ میں ٹھہرے ۔اسی کو وادئ خصب بھی کہتے ہیں۔رسول اللہﷺ نے اس دن ظہر عصر مغرب اور عشاء کی نمازیں اسی مقام پر ادا کیں۔اور عشاء کے بعد کچھ آرام فرما کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئےاور طواف وداع ادا فرمایا۔(الرحیق المختوم ص:620) 3۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن عذر حیض کی وجہ سے عمرہ کیے بغیر حج کا احرام باندھنا پڑا۔اس طرح کی صورت حال میں عمرے کے اعمال اد ا کیے بغیر حج اور عمرہ دونوں ادا سمجھے جاتے ہیں۔ 4۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ وہ باقاعدہ عمرہ بھی ادا کریں چنانچہ رسول اللہﷺ نے انہیں ان کے بھائی کے ساتھ عمرے کے لیے بھیج دیا۔ یہ رسول اللہﷺ کا اپنی زوجہ محترمہ سے حسن سلوک کا اظہار تھا۔ 5۔تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں ہے۔رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر آکر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی (حائضہ) عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہےنہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے چھوٹا عمرہ قرار دیتے ہیں۔یہ رواج یا استدلال بے بنیاد ہے۔ 6۔حج کے بعد عمرہ کرنے سے حج تمتع نہیں بنتا بلکہ حج سے پہلے عمرہ کرنے سے حج تمتع بنتا ہے۔پہلے عمرے کی وجہ سے قربانی دی گئیاس دوسرے عمرے کی وجہ سے کوئی قربانی نہیں دی گئی۔نہ اس کا متبادل فدیہ روزون کی صورت میں ادا کیا گیا۔