Book - حدیث 3

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ

ترجمہ Book - حدیث 3

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: سنت رسول ﷺ کی پیروی کا بیان حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ،رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا:’جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘
تشریح : (1) یہ مسئلہ قرآن مجید میں بھی ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: () (النساء:80) جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے (اصل میں) اللہ کی اطاعت کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کے احکام اپنی رائے اور پسند کے مطابق نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے مطابق بیان فرماتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: () (النجم:3،4) وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے، بلکہ وہ تو وحی ہے جو (ان پر) نازل کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان احکام پر اسی طرح عمل کرتے تھے جس طرح دوسرے مومنین، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو عام مومنوں سے کہیں زیادہ تقویٰ اور عمل صالح کا اسوہ حسنہ پیش فرماتے تھے۔ (2) قرآن مجید، فرامین نبوی اور صحابہ و تابعین کرام کے اقوال، سنت نبوی کی پیروی اور اتباع کو لازم ٹھہراتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند فرامین درج ذیل ہیں: (ا) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لوگو! اصحاب الرائے سے بچو، کیونکہ وہ سنت کے دشمن ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو حفظ کرنے سے عاجز آ گئے تو انہوں نے اپنی رائے سے مسائل بیان کرنے شروع کر دیے۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ دیکھئے: (مفتاح الجنة في الاحتجاج بالسنة‘ ص:47) (ب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کو عصر کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: مت پڑھا کرو۔ وہ کہنے لگے: میں تو پڑھوں گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نماز سے منع کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں ان دو رکعتوں پر ثواب کی بجائے سزا ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: () (الاحزاب:36) کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ (سنن اكدارمي‘ المقدمة‘ باب ما يتقي من تفسير حديث النبي صلي الله عليه وسلم وقول غيره عند قوله صلي الله عليه وسلم‘ حديث:438) (ج) حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب تو کسی شخص کو سنت نبوی کی تعلیم دے اور وہ کہے: سنت نبوی کو چھوڑیے قرآن سے تعلیم دیں۔ تو جان لو ایسا شخص گمراہ ہے۔ دیکھیے: (مفتاح الجنۃ،ص:35) (د) امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو فرمان نبوی سنایا تو وہ کہنے لگا: فلاں فلاں شخص تو ایسے ایسے کہتے ہیں۔ امام صاحب کہتے ہیں: میں تجھے فرمان نبوی سناتا ہوں اور تو مجھے لوگوں کی آراء سناتا ہے؟ جا! آج کے بعد میں تیرے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ دیکھیے: (ايقاظ الهمة لاتباع نبي الامة‘ ص:123) اسلاف کے اس طرز عمل سے ثابت ہوا کہ ائمہ کی تقلید اور لوگوں کی آراء کی پیروی قطعا درست اور جائز نہیں۔ (3) علامہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (والتقليد قبول قول الغير بلا دليل فكانه لقوبله جعله قلادة في عنقه) (شرح قصيدة امالي‘ ص:34) :کسی دوسرے کی بات بغیر دلیل کے قبول کرنا تقلید ہے۔ فویا کہ مقلد شخص نے امام کے قول کو قبول کر کے گلے کا ہاد بنا لیا ہے۔ (4) تقلید کی ابتدا خیرالقروں کے بعد چوتھی صدی ہجری میں ہوئی۔ اس سے پہلے یہ بدعت موجود نہ تھی بلکہ صحابہ کرام، تابعین کرام اور ان کے شاگرد قرآن و سنت کی پیروی ہی کو واجب سمجھتے تھے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (اعلم ان الناس كانوا قبل المائة الرابعة غير مجمعين علي التقليد الخالص لمذهب واحد) جان لو کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی ایک خالص مذہب کی تقلید پر متفق نہ تھے (حجة الله البالغة‘ ص:157) (5) تقلید کے رد میں صحابہ کرام اور ائمہ مذاہب کے فرامین ملاحظہ ہوں: (ا) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی روح قبض کی نہ ان سے وحی منقطع کی حتیٰ کہ ان کی امت کو لوگوں کی آراء سے بے پروا فرمادیا۔ دیکھیے (حقیقۃ الفقۃ،ص:75) (ب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں آتا کہ وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے یا تمہیں زمین میں دھنسا دے، تم کہتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا تھا اور فلاں شخص نے یوں فرمایا ہے، یعنی فرمان نبوی کے مقابلے میں کسی شخص کی رائے کو پیش کرنا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔ (حقیقۃ الفقۃ،ص:76) (ج) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم میں سے کوئی شخص دین کے بارے میں کسی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ (متبوع) مومن رہا تو اس کا مومن بھی مقلد رہے گا اور اگر وہ کافر ہوا تو اس کا مقلد بھی کافر ہو جائے گا۔ اس اعتابر سے یہ تقلید بلاشبہ برائی میں اسوہ ہے۔ (الایقاظ لهم اولي الابصار) اعاذنالله منه. (د) حضرت عبداللہ بن معتمر کہتے ہیں: (لا فرق بين بهيمة تنقاد وانسان يقلد) مقلد شخص اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ (حقیقۃ الفقۃ،ص:78) (ہ) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (لا تقلدني ولا تقلدن مالكا ولا غيره وخذالاحكام من حيث اخذوا من الكتاب والسنة) (حقيقة الفقة‘ص:90) میری تقلید نہ کرنا، نہ مالک کی نہ کسی اور کی تقلید کرنا۔ احکام کو وہاں سے حاصل کرو جہاں سے انہوں نے حاصل کیے ہیں، یعنی کتاب و سنت سے۔ نیز فرمایا: کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ میری دلیل سے واقف ہوئے بغیر میرے کلام کا فتویٰ دے۔ (حقیقۃ الفقۃ۔ص:88) (ر) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے (وہ واجب الاتباع ہے۔) (ز) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب تم دیکھو کہ میرا قول حدیث نبوی کے خلاف ہے تو حدیث نبوی پر عمل کرو اور میرے قول کو دیوار پر دے مارو۔ نیز فرمایا: (اذا صح الحديث فهو مذهبي) (عقد الجيد و حجة الله البالغة:1/157) جب صحیح حدیث مل جائے تو میرا مذہب وہی ہے۔ (ح) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کلام کی گنجائش نہیں۔ (کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔) (ط) امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (هل يقلد الا عصي) تقلید نافرمان ہی کرتا ہے۔ (ی) علامہ جاراللہ حنفی فرماتے ہیں: (ان كان لضلا ام فالتقليد امه) اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو وہ تقلید ہی ہوتی۔ (حقیقۃ الفقۃ،ص:51-58) ائمہ سلف کے مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ گمراہی کا اصل اور اس کی جڑ تقلید ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے اور تقلید سے نجات دے۔ آمین. (1) یہ مسئلہ قرآن مجید میں بھی ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: () (النساء:80) جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے (اصل میں) اللہ کی اطاعت کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کے احکام اپنی رائے اور پسند کے مطابق نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے مطابق بیان فرماتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: () (النجم:3،4) وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے، بلکہ وہ تو وحی ہے جو (ان پر) نازل کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان احکام پر اسی طرح عمل کرتے تھے جس طرح دوسرے مومنین، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو عام مومنوں سے کہیں زیادہ تقویٰ اور عمل صالح کا اسوہ حسنہ پیش فرماتے تھے۔ (2) قرآن مجید، فرامین نبوی اور صحابہ و تابعین کرام کے اقوال، سنت نبوی کی پیروی اور اتباع کو لازم ٹھہراتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند فرامین درج ذیل ہیں: (ا) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لوگو! اصحاب الرائے سے بچو، کیونکہ وہ سنت کے دشمن ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو حفظ کرنے سے عاجز آ گئے تو انہوں نے اپنی رائے سے مسائل بیان کرنے شروع کر دیے۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ دیکھئے: (مفتاح الجنة في الاحتجاج بالسنة‘ ص:47) (ب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کو عصر کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: مت پڑھا کرو۔ وہ کہنے لگے: میں تو پڑھوں گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نماز سے منع کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں ان دو رکعتوں پر ثواب کی بجائے سزا ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: () (الاحزاب:36) کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ (سنن اكدارمي‘ المقدمة‘ باب ما يتقي من تفسير حديث النبي صلي الله عليه وسلم وقول غيره عند قوله صلي الله عليه وسلم‘ حديث:438) (ج) حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب تو کسی شخص کو سنت نبوی کی تعلیم دے اور وہ کہے: سنت نبوی کو چھوڑیے قرآن سے تعلیم دیں۔ تو جان لو ایسا شخص گمراہ ہے۔ دیکھیے: (مفتاح الجنۃ،ص:35) (د) امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو فرمان نبوی سنایا تو وہ کہنے لگا: فلاں فلاں شخص تو ایسے ایسے کہتے ہیں۔ امام صاحب کہتے ہیں: میں تجھے فرمان نبوی سناتا ہوں اور تو مجھے لوگوں کی آراء سناتا ہے؟ جا! آج کے بعد میں تیرے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ دیکھیے: (ايقاظ الهمة لاتباع نبي الامة‘ ص:123) اسلاف کے اس طرز عمل سے ثابت ہوا کہ ائمہ کی تقلید اور لوگوں کی آراء کی پیروی قطعا درست اور جائز نہیں۔ (3) علامہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (والتقليد قبول قول الغير بلا دليل فكانه لقوبله جعله قلادة في عنقه) (شرح قصيدة امالي‘ ص:34) :کسی دوسرے کی بات بغیر دلیل کے قبول کرنا تقلید ہے۔ فویا کہ مقلد شخص نے امام کے قول کو قبول کر کے گلے کا ہاد بنا لیا ہے۔ (4) تقلید کی ابتدا خیرالقروں کے بعد چوتھی صدی ہجری میں ہوئی۔ اس سے پہلے یہ بدعت موجود نہ تھی بلکہ صحابہ کرام، تابعین کرام اور ان کے شاگرد قرآن و سنت کی پیروی ہی کو واجب سمجھتے تھے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (اعلم ان الناس كانوا قبل المائة الرابعة غير مجمعين علي التقليد الخالص لمذهب واحد) جان لو کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی ایک خالص مذہب کی تقلید پر متفق نہ تھے (حجة الله البالغة‘ ص:157) (5) تقلید کے رد میں صحابہ کرام اور ائمہ مذاہب کے فرامین ملاحظہ ہوں: (ا) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی روح قبض کی نہ ان سے وحی منقطع کی حتیٰ کہ ان کی امت کو لوگوں کی آراء سے بے پروا فرمادیا۔ دیکھیے (حقیقۃ الفقۃ،ص:75) (ب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں آتا کہ وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے یا تمہیں زمین میں دھنسا دے، تم کہتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا تھا اور فلاں شخص نے یوں فرمایا ہے، یعنی فرمان نبوی کے مقابلے میں کسی شخص کی رائے کو پیش کرنا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔ (حقیقۃ الفقۃ،ص:76) (ج) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم میں سے کوئی شخص دین کے بارے میں کسی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ (متبوع) مومن رہا تو اس کا مومن بھی مقلد رہے گا اور اگر وہ کافر ہوا تو اس کا مقلد بھی کافر ہو جائے گا۔ اس اعتابر سے یہ تقلید بلاشبہ برائی میں اسوہ ہے۔ (الایقاظ لهم اولي الابصار) اعاذنالله منه. (د) حضرت عبداللہ بن معتمر کہتے ہیں: (لا فرق بين بهيمة تنقاد وانسان يقلد) مقلد شخص اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ (حقیقۃ الفقۃ،ص:78) (ہ) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (لا تقلدني ولا تقلدن مالكا ولا غيره وخذالاحكام من حيث اخذوا من الكتاب والسنة) (حقيقة الفقة‘ص:90) میری تقلید نہ کرنا، نہ مالک کی نہ کسی اور کی تقلید کرنا۔ احکام کو وہاں سے حاصل کرو جہاں سے انہوں نے حاصل کیے ہیں، یعنی کتاب و سنت سے۔ نیز فرمایا: کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ میری دلیل سے واقف ہوئے بغیر میرے کلام کا فتویٰ دے۔ (حقیقۃ الفقۃ۔ص:88) (ر) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے (وہ واجب الاتباع ہے۔) (ز) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب تم دیکھو کہ میرا قول حدیث نبوی کے خلاف ہے تو حدیث نبوی پر عمل کرو اور میرے قول کو دیوار پر دے مارو۔ نیز فرمایا: (اذا صح الحديث فهو مذهبي) (عقد الجيد و حجة الله البالغة:1/157) جب صحیح حدیث مل جائے تو میرا مذہب وہی ہے۔ (ح) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کلام کی گنجائش نہیں۔ (کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔) (ط) امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (هل يقلد الا عصي) تقلید نافرمان ہی کرتا ہے۔ (ی) علامہ جاراللہ حنفی فرماتے ہیں: (ان كان لضلا ام فالتقليد امه) اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو وہ تقلید ہی ہوتی۔ (حقیقۃ الفقۃ،ص:51-58) ائمہ سلف کے مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ گمراہی کا اصل اور اس کی جڑ تقلید ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے اور تقلید سے نجات دے۔ آمین.