Book - حدیث 2964

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ الْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَأَبُو مُصْعَبٍ قَالَا حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ

ترجمہ Book - حدیث 2964

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: حج مفرد کرنا حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کے اللہ کے رسول نے حج مفرد ادا کیا۔
تشریح : 1۔حج کی تین قسمیں ہیں ان میں سے جس طریقے سے بھی حج ادا کیا جائے درست ہے۔ (ا)حج افراد: اس میں حج کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔مکہ شریف پہنچ کر جو طواف کرتے ہیں وہ طواف قدوم کہلاتا ہے پھر احرام کھولے بغیر مکہ میں رہتے ہیں۔یوم الترویہ(8 ذی الحجہ ) کو اسی احرام کے ساتھ منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔وہاں ظہر سے لیکر اگلے دن (9 ذوالحجہ) کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں۔سورج نکلنے کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔وہاں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں پھر سورج غروب ہونے تک ذکر الہہی اور دعا ومناجات میں مشغول رہتے ہیں۔یہ وقوف (عرفات میں ٹھرنا) حج کا سب سے اہم رکن ہے۔سورج غروب ہونے پر مزدلفہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں۔رات مزدلفہ میں گزار کر صبح(دس ذوالحجہ کو) فجر کی نماز ادا کرکے وہاں ٹھرے رہتے ہیں۔کافی روشنی ہوجانے پر سورج نکلنے سے پہلے منی کی طرف چلتے ہیں۔منی پہنچ کر سورج نکلنے کے بعد بڑے جمرے کو سات کنکریاں مارتے ہیں قربانی کرتے ہیں اور سر کے باک اتروا کر احرام کھول دیتے ہیں اور اسی دن سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے طواف کعبہ کرتے اور رات منی میں واپس آکر گزارتے ہیں،گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو منی میں ٹھرتے ہیں۔ان تین دنوں میں روزانہ زوال کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔اگر کوئی شخص گیارہ اور بارہ تاریخ کو کنکریاں مار کر واپس آنا چاہے تو آسکتا ہے۔حج افراد میں قربانی کرنا ضروری نہیں ثواب کا باعث ہے۔ (ب)حج قران کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے حض اور عمرہ دونوں کا احرام باندھتے ہیں۔مکہ پہنچ کر طواف اور سعی کرتے ہیں۔یہ عمرہ بن جاتا ہے لیکن اس کے بعد بال اترواکر احرام بہیں کھولتے بلکہ احرام میں ہی رہتے ہیں۔اس طرح آٹھ ذوالحجہ کو منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور وہ تمام کام کرتےہیں جو حض افراد میں بیان ہوئے۔حج قران کرنے والے میقات سے یا وطن سے قربانی کے جانور ساتھ لیکرآتے ہیں۔ (ج)حج تمتع کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھتے ہیں مکہ شریف پہنچ کر طواف اور سعی کرکے بال چھوٹے کراکے احرام کھول دیتے ہیں پھر آٹھ ذوالحجہ کو مکہ ہی سے احرام باندھ کر حج کےتمام ارکان ادا کرتےہیں۔اور دس ذی الحجہ کو قربانی دیتے ہیں۔جو قربانی کی طاقت نہ رکھتاہو وہ دس روزے رکھ لے جن میں سے تین روزے ایام حج میں رکھنا ضروری ہیں۔ 2۔مدینہ منورہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اللہﷺ کا ارادہ حج مفرور کا تھا۔بعد میں رسول اللہﷺ نے ارادہ بدل دیا۔ام المومنین رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا یہی مطلب ہے۔ 1۔حج کی تین قسمیں ہیں ان میں سے جس طریقے سے بھی حج ادا کیا جائے درست ہے۔ (ا)حج افراد: اس میں حج کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔مکہ شریف پہنچ کر جو طواف کرتے ہیں وہ طواف قدوم کہلاتا ہے پھر احرام کھولے بغیر مکہ میں رہتے ہیں۔یوم الترویہ(8 ذی الحجہ ) کو اسی احرام کے ساتھ منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔وہاں ظہر سے لیکر اگلے دن (9 ذوالحجہ) کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں۔سورج نکلنے کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔وہاں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں پھر سورج غروب ہونے تک ذکر الہہی اور دعا ومناجات میں مشغول رہتے ہیں۔یہ وقوف (عرفات میں ٹھرنا) حج کا سب سے اہم رکن ہے۔سورج غروب ہونے پر مزدلفہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں۔رات مزدلفہ میں گزار کر صبح(دس ذوالحجہ کو) فجر کی نماز ادا کرکے وہاں ٹھرے رہتے ہیں۔کافی روشنی ہوجانے پر سورج نکلنے سے پہلے منی کی طرف چلتے ہیں۔منی پہنچ کر سورج نکلنے کے بعد بڑے جمرے کو سات کنکریاں مارتے ہیں قربانی کرتے ہیں اور سر کے باک اتروا کر احرام کھول دیتے ہیں اور اسی دن سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے طواف کعبہ کرتے اور رات منی میں واپس آکر گزارتے ہیں،گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو منی میں ٹھرتے ہیں۔ان تین دنوں میں روزانہ زوال کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔اگر کوئی شخص گیارہ اور بارہ تاریخ کو کنکریاں مار کر واپس آنا چاہے تو آسکتا ہے۔حج افراد میں قربانی کرنا ضروری نہیں ثواب کا باعث ہے۔ (ب)حج قران کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے حض اور عمرہ دونوں کا احرام باندھتے ہیں۔مکہ پہنچ کر طواف اور سعی کرتے ہیں۔یہ عمرہ بن جاتا ہے لیکن اس کے بعد بال اترواکر احرام بہیں کھولتے بلکہ احرام میں ہی رہتے ہیں۔اس طرح آٹھ ذوالحجہ کو منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور وہ تمام کام کرتےہیں جو حض افراد میں بیان ہوئے۔حج قران کرنے والے میقات سے یا وطن سے قربانی کے جانور ساتھ لیکرآتے ہیں۔ (ج)حج تمتع کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھتے ہیں مکہ شریف پہنچ کر طواف اور سعی کرکے بال چھوٹے کراکے احرام کھول دیتے ہیں پھر آٹھ ذوالحجہ کو مکہ ہی سے احرام باندھ کر حج کےتمام ارکان ادا کرتےہیں۔اور دس ذی الحجہ کو قربانی دیتے ہیں۔جو قربانی کی طاقت نہ رکھتاہو وہ دس روزے رکھ لے جن میں سے تین روزے ایام حج میں رکھنا ضروری ہیں۔ 2۔مدینہ منورہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اللہﷺ کا ارادہ حج مفرور کا تھا۔بعد میں رسول اللہﷺ نے ارادہ بدل دیا۔ام المومنین رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا یہی مطلب ہے۔