Book - حدیث 2953

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ الرَّمَلِ، حَوْلَ الْبَيْتِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ حِينَ أَرَادُوا دُخُولَ مَكَّةَ فِي عُمْرَتِهِ بَعْدَ الْحُدَيْبِيَةِ إِنَّ قَوْمَكُمْ غَدًا سَيَرَوْنَكُمْ فَلَيَرَوُنَّكُمْ جُلْدًا فَلَمَّا دَخَلُوا الْمَسْجِدَ اسْتَلَمُوا الرُّكْنَ وَرَمَلُوا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ حَتَّى إِذَا بَلَغُوا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ مَشَوْا إِلَى الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ ثُمَّ رَمَلُوا حَتَّى بَلَغُوا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ ثُمَّ مَشَوْا إِلَى الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ مَشَى الْأَرْبَعَ

ترجمہ Book - حدیث 2953

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: طواف کعبہ کے دوران میں رمل کرنا حضرت عبداللہ بن عباس ؓروایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب عمرہ کے مو قع پر صحابہ ؓ نے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو نبی ﷺنے ان سے فرمایا:کل تمہاری قوم کے لوگ تم ہیں تمہیں دیکھیں گے ‘لہٰذاٰضروری ہے کہ تم انھیں مضبوط نظر آؤ۔‘‘ چنانچہ جب صحا بہ کرام ؓ مسجد حرام میں داخل ہو ے تو انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور رمل کیا ‘نبی ﷺبھی ان کےساتھ تھے ۔جب وہ حضرات رکن یمانی پرپہنچے تو حجراسود تک (عام چال سے)چل کرگئے ۔پھر رمل کیا حتیٰ کہ رکن یمانی تک پہنچ گئے ۔پھر حجر اسود تک چل کرگئے ۔نبیﷺنے بھی تین بار اسی طرح (رمل )کیا‘پھرچار بار (دوڑے بغیر)چل کر طواف کیا۔
تشریح : 1۔صلح حدیبیہ ذوالقعدہ 6ھ میں ہوئی۔اس میں شرط یہ تھی کہ مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ واپس چلے جائیں۔اگلے سال مسلمان عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور تین دن سے زیادہ مکے میں نہ ٹھریں۔ 2۔اس شرط کے مطابق دو ہزار مرد اور ان کے علاوہ کچھ عورتیں اور بچے بھی ذوالقعدہ 7ھ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عمرے کے لیے مکہ پہنچے۔(فتح الباري:٦٢٧/٧) 3۔صحابہ کرام نے طواف کے دوران میں بیت اللہ کے تین طرف رمل کیا اور چوتھی طرف عام رفتار سے چلے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین مکہ گھروں سے نکل کر کعبہ کے شمال میں جبل قعیقعان پر جا بیٹھے تھے۔مسلمان کعبہ کے تین اطراف انھیں پھرتی سے دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے ۔چوتھی طرف مسلمان کعبہ شریف کی اوٹ میں ہوجانے کی وجہ سے نظر نہیں آتے تھے۔ 4۔مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں پر ہر لحاظ سے اپنا رعب قائم رکھیں تاکہ کافران پر ظلم کرنے کے بارے میں سوچ نہ سکیں۔ 1۔صلح حدیبیہ ذوالقعدہ 6ھ میں ہوئی۔اس میں شرط یہ تھی کہ مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ واپس چلے جائیں۔اگلے سال مسلمان عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور تین دن سے زیادہ مکے میں نہ ٹھریں۔ 2۔اس شرط کے مطابق دو ہزار مرد اور ان کے علاوہ کچھ عورتیں اور بچے بھی ذوالقعدہ 7ھ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عمرے کے لیے مکہ پہنچے۔(فتح الباري:٦٢٧/٧) 3۔صحابہ کرام نے طواف کے دوران میں بیت اللہ کے تین طرف رمل کیا اور چوتھی طرف عام رفتار سے چلے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین مکہ گھروں سے نکل کر کعبہ کے شمال میں جبل قعیقعان پر جا بیٹھے تھے۔مسلمان کعبہ کے تین اطراف انھیں پھرتی سے دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے ۔چوتھی طرف مسلمان کعبہ شریف کی اوٹ میں ہوجانے کی وجہ سے نظر نہیں آتے تھے۔ 4۔مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں پر ہر لحاظ سے اپنا رعب قائم رکھیں تاکہ کافران پر ظلم کرنے کے بارے میں سوچ نہ سکیں۔