Book - حدیث 2943

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ

ترجمہ Book - حدیث 2943

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: حجرا سود کو بو سہ دینا حضرت عبداللہ بن سرجس سے روایت ہے ‘انہوں نے فر یا:میں نے کم بالوںوالے عمر بن خطاب کو دیکھا کہ وہ حجراسودکو بوسہ دیتے اور فرماتے تھے :میں تجھے چو م رہا ہوں‘حالا نکہ میں جانتا ہوں کہ توں تو محض ایک پتھر ہے ‘نہ کس کو نقصان پہنچا سکتا ہے ‘نہ نفع دے سکتا ہے۔اگرمیں نے رسول اللہﷺکو تجھےچومتے نہ دیکھاہوتا تو تجھے نہ چومتا۔
تشریح : 1۔طواف کعبہ کے دوران میں حجر اسود کو بوسہ دینا درست ہے لیکن اس مقصڈ کے لیے دھکم پیل کرنا جائز نہیں۔اگر آسانی سے بوسہ دینا ممکن ہوتو یہ بہتر ہےورنہ چھڑی یا ہاتھ حجر اسود کو لگا کر اسے بوسہ دیا جائے۔اگر چھڑی یا ہاتھ بھی حجر اسود کو لگانا مشکل ہو تو حجر اسودکی طرف اشارہ کرکے آگے گزرجانا چاہیے۔اس صورت میں اپنے ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا جائے۔ 2۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بات اس لیے یاد فرمائی کہ توحید اور اتباع کا مسئلہ واضح ہوجائے۔مشرکین بتوں کو یا بزرگوں سے منسوب چیزوں کو حصول برکت کے لیے چھوتے تھےاورسمجھتے تھےکہ انھیں چھونے سے حاجتیں پوری ہوسکتی ہیں۔مسلمانوں کے حجر اسود کے چھونے سے یہ شبہ نہیں ہوناچاہیے کہ پتھر کی پوجا کرتے ہیں بلکہ یہ تو سرف اتباع سنت کے طور پر کرتےہیں۔ 3۔حجر اسود کے سوا کعبہ کا کوئی اور حصہ چومنا مناسب نہیں اس لیے کعبہ کی دیواروں کو یا کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ کو یا مقام ابراہیم کی جالی کو چومنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 4۔رکن یمانی کو بھی چومنا مناسب نہیں صرف ہاتھ لگانا سنت ہے۔طواف کے دوران میں آسانی سے ہوسکے تو رکن یمانی کو ہاتھ لگایا جائے ورنہ اشارہ وگیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ایسے ہی آگے گزر جائیں۔ 1۔طواف کعبہ کے دوران میں حجر اسود کو بوسہ دینا درست ہے لیکن اس مقصڈ کے لیے دھکم پیل کرنا جائز نہیں۔اگر آسانی سے بوسہ دینا ممکن ہوتو یہ بہتر ہےورنہ چھڑی یا ہاتھ حجر اسود کو لگا کر اسے بوسہ دیا جائے۔اگر چھڑی یا ہاتھ بھی حجر اسود کو لگانا مشکل ہو تو حجر اسودکی طرف اشارہ کرکے آگے گزرجانا چاہیے۔اس صورت میں اپنے ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا جائے۔ 2۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بات اس لیے یاد فرمائی کہ توحید اور اتباع کا مسئلہ واضح ہوجائے۔مشرکین بتوں کو یا بزرگوں سے منسوب چیزوں کو حصول برکت کے لیے چھوتے تھےاورسمجھتے تھےکہ انھیں چھونے سے حاجتیں پوری ہوسکتی ہیں۔مسلمانوں کے حجر اسود کے چھونے سے یہ شبہ نہیں ہوناچاہیے کہ پتھر کی پوجا کرتے ہیں بلکہ یہ تو سرف اتباع سنت کے طور پر کرتےہیں۔ 3۔حجر اسود کے سوا کعبہ کا کوئی اور حصہ چومنا مناسب نہیں اس لیے کعبہ کی دیواروں کو یا کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ کو یا مقام ابراہیم کی جالی کو چومنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 4۔رکن یمانی کو بھی چومنا مناسب نہیں صرف ہاتھ لگانا سنت ہے۔طواف کے دوران میں آسانی سے ہوسکے تو رکن یمانی کو ہاتھ لگایا جائے ورنہ اشارہ وگیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ایسے ہی آگے گزر جائیں۔