Book - حدیث 2932

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ السَّرَاوِيلِ وَالْخُفَّيْنِ لِلْمُحْرِمِ،إِذَا لَمْ يَجِدْ إِزَارًا أَوْ نَعْلَيْنِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ

ترجمہ Book - حدیث 2932

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: اگر احرام باندھنے والے کے تہبند یا جوتے میسر نہ ہو ں تو پاجامہ اور موزے پہن سکتاہے؟ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جسے جوتے میسر نہ ہوں‘وہ موزے پہن لے اور انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے(تاکہ جوتوں کی طرح بن جائیں)۔‘‘
تشریح : 1۔مرد کے لیے سلا ہوا کپڑا پہننا منع ہے البتہ مجبوری کی حالت میں شلوار یا پاجامہ پہننا جائز ہے۔ 2۔احرام کی حالت میںچمڑے کے موزے پہننا بھی جائز نہیں لیکن جس کے پاس جوتے نہ ہوں وہ پہن سکتا ہے۔ 3۔علامہ البانیؒ اور دیگر سعودی علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر جوتے نہ پہننے کی وجہ سے موزے پہننے پڑیں تو انھیں کاٹنا ضروری نہیں کیونکہ کاٹنے کا حکم مدینے میں دیا گیا تھا بعد میں سفر حج کے دوران میں نبی ﷺ نے ایسی صورت میں موزے پہننے کی اجازت دی اور کاٹنے کا حکم نہیں دیا حالانکہ اس موقع پر بہت سے ایسے افراد موجود تھے جنہوں نے مدینے میں رسول اللہﷺ سے موزے کاٹنے کا حکم نہیں سنا تھا۔اگر کاٹنا ضروری ہوتا تو رسول اللہﷺ اس وقت ضرور وضاحت فرمادیتے۔(فتاوي اسلاميه:٣١١/٢ مطبوعه دار السلام) 1۔مرد کے لیے سلا ہوا کپڑا پہننا منع ہے البتہ مجبوری کی حالت میں شلوار یا پاجامہ پہننا جائز ہے۔ 2۔احرام کی حالت میںچمڑے کے موزے پہننا بھی جائز نہیں لیکن جس کے پاس جوتے نہ ہوں وہ پہن سکتا ہے۔ 3۔علامہ البانیؒ اور دیگر سعودی علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر جوتے نہ پہننے کی وجہ سے موزے پہننے پڑیں تو انھیں کاٹنا ضروری نہیں کیونکہ کاٹنے کا حکم مدینے میں دیا گیا تھا بعد میں سفر حج کے دوران میں نبی ﷺ نے ایسی صورت میں موزے پہننے کی اجازت دی اور کاٹنے کا حکم نہیں دیا حالانکہ اس موقع پر بہت سے ایسے افراد موجود تھے جنہوں نے مدینے میں رسول اللہﷺ سے موزے کاٹنے کا حکم نہیں سنا تھا۔اگر کاٹنا ضروری ہوتا تو رسول اللہﷺ اس وقت ضرور وضاحت فرمادیتے۔(فتاوي اسلاميه:٣١١/٢ مطبوعه دار السلام)