Book - حدیث 293

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الْفِطْرَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرٌ مِنْ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ وَالسِّوَاكُ وَالِاسْتِنْشَاقُ بِالْمَاءِ وَقَصُّ الْأَظْفَارِ وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ وَنَتْفُ الْإِبِطِ وَحَلْقُ الْعَانَةِ وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ يَعْنِي الِاسْتِنْجَاءَ قَالَ زَكَرِيَّا قَالَ مُصْعَبٌ وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ

ترجمہ Book - حدیث 293

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: امورفطرت کا بیان سیدہ عائشہ ؓا سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ دس چیزیں فطرت سے ہیں: مونچھیں کاٹنا، ڈاڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ( دوران وضو) ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑ دھونا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، زیر ناف بال مونڈنا اور پانی استعمال کرنا، یعنی استنجا کرنا۔‘‘ (حدیث کے ایک راوی) جناب مصعب ؓ نے( حدیث روایت کرتے ہوئے) فرمایا: میں دسویں چیز بھول گیا ہوں، شاید کلی کرنا ہو۔
تشریح : داڑھی بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کاٹا نہ جائے جس طرح مونچھوں کے بال کاٹ لیے جاتے ہیں۔داڑھی منڈوانا حرام ہے اور منڈوانے والا فاسق ہےکیونکہ وہ ان احادیث کی مخالفت کرتا ہے جن میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (خالفوا المشركين ووفروا اللحي واحفوا الشوارب) ( صحيح البخاري اللباس باب تقليم الاظفار حديث:٥٨٩٢ وصحيح مسلم الطهارة باب خصال الفطرة حديث: ٢٥٩) مشرکوں کی مخالفت کرو ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کترواؤ۔ اور حضرت ابو وریرہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ( جزوا الشوارب وارخوا اللحي وخالفوا المجوس) صحيح مسلم الطهاره باب خصال الفطرحديث:٢٦-) مونچھوں کو کترواؤ ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ داڑھی منڈوانے پر اصرار کرنا کبیرہ گناہ ہے جو شخص مندوائے اسے نصیحت کرنااور ڈاڑھی منڈوانے سے منع کرنا واجب ہےاگر ایسا کوئی شخص قیادت یا کسی دینی مرکز میں ہوتو اسے اور بھی زیادہ تاکید کے ساتھ سمجھانا ضروری ہے۔علاوہ ازیں احادیث میں مونچھوں کی کانٹ تراش کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ایک ہے احفاء جس کے معنی خوب اچھی طرح مونڈنا ہیں اور دوسرا ہے قص جس کے معنی قینچی وغیرہ سے کاٹنے کے ہیں لہذا اس مسئلہ میں شرعا دونوں طرح اختیار ہے،لہذا ہماری رائے میں یہ کہنا جائز نہیں کہ مونچھوں کو خوب اچھی مونڈنامثلہ یا بدعت ہےکیونکہ ایسا کہنا مذکورہ نص کے خلاف ہےاور رسول اللہ ﷺکی سنت صحیحہ کی موجودگی میں کسی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ 2۔انگلیوں کے جوڑوں میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے اس لیے وضو اور غسل کے موقع پر ان مقامات کو زیادہ توجہ سے صاف کرنا چاہیے اسی طرح جسم کے وہ حصے جہاں میل کچیل جمع ہوجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے غسل کے دوران میں ان کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ویسے بھی اگر ان مقامات کی طرف توجہ نہ دی جائے تو بعض اوقات وہاں پانی نہیں پہنچ پاتا اور غسل نہیں ہوتا۔ داڑھی بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کاٹا نہ جائے جس طرح مونچھوں کے بال کاٹ لیے جاتے ہیں۔داڑھی منڈوانا حرام ہے اور منڈوانے والا فاسق ہےکیونکہ وہ ان احادیث کی مخالفت کرتا ہے جن میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (خالفوا المشركين ووفروا اللحي واحفوا الشوارب) ( صحيح البخاري اللباس باب تقليم الاظفار حديث:٥٨٩٢ وصحيح مسلم الطهارة باب خصال الفطرة حديث: ٢٥٩) مشرکوں کی مخالفت کرو ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کترواؤ۔ اور حضرت ابو وریرہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ( جزوا الشوارب وارخوا اللحي وخالفوا المجوس) صحيح مسلم الطهاره باب خصال الفطرحديث:٢٦-) مونچھوں کو کترواؤ ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ داڑھی منڈوانے پر اصرار کرنا کبیرہ گناہ ہے جو شخص مندوائے اسے نصیحت کرنااور ڈاڑھی منڈوانے سے منع کرنا واجب ہےاگر ایسا کوئی شخص قیادت یا کسی دینی مرکز میں ہوتو اسے اور بھی زیادہ تاکید کے ساتھ سمجھانا ضروری ہے۔علاوہ ازیں احادیث میں مونچھوں کی کانٹ تراش کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ایک ہے احفاء جس کے معنی خوب اچھی طرح مونڈنا ہیں اور دوسرا ہے قص جس کے معنی قینچی وغیرہ سے کاٹنے کے ہیں لہذا اس مسئلہ میں شرعا دونوں طرح اختیار ہے،لہذا ہماری رائے میں یہ کہنا جائز نہیں کہ مونچھوں کو خوب اچھی مونڈنامثلہ یا بدعت ہےکیونکہ ایسا کہنا مذکورہ نص کے خلاف ہےاور رسول اللہ ﷺکی سنت صحیحہ کی موجودگی میں کسی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ 2۔انگلیوں کے جوڑوں میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے اس لیے وضو اور غسل کے موقع پر ان مقامات کو زیادہ توجہ سے صاف کرنا چاہیے اسی طرح جسم کے وہ حصے جہاں میل کچیل جمع ہوجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے غسل کے دوران میں ان کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ویسے بھی اگر ان مقامات کی طرف توجہ نہ دی جائے تو بعض اوقات وہاں پانی نہیں پہنچ پاتا اور غسل نہیں ہوتا۔ داڑھی بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کاٹا نہ جائے جس طرح مونچھوں کے بال کاٹ لیے جاتے ہیں۔داڑھی منڈوانا حرام ہے اور منڈوانے والا فاسق ہےکیونکہ وہ ان احادیث کی مخالفت کرتا ہے جن میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (خالفوا المشركين ووفروا اللحي واحفوا الشوارب) ( صحيح البخاري اللباس باب تقليم الاظفار حديث:٥٨٩٢ وصحيح مسلم الطهارة باب خصال الفطرة حديث: ٢٥٩) مشرکوں کی مخالفت کرو ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کترواؤ۔ اور حضرت ابو وریرہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ( جزوا الشوارب وارخوا اللحي وخالفوا المجوس) صحيح مسلم الطهاره باب خصال الفطرحديث:٢٦-) مونچھوں کو کترواؤ ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ داڑھی منڈوانے پر اصرار کرنا کبیرہ گناہ ہے جو شخص مندوائے اسے نصیحت کرنااور ڈاڑھی منڈوانے سے منع کرنا واجب ہےاگر ایسا کوئی شخص قیادت یا کسی دینی مرکز میں ہوتو اسے اور بھی زیادہ تاکید کے ساتھ سمجھانا ضروری ہے۔علاوہ ازیں احادیث میں مونچھوں کی کانٹ تراش کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ایک ہے احفاء جس کے معنی خوب اچھی طرح مونڈنا ہیں اور دوسرا ہے قص جس کے معنی قینچی وغیرہ سے کاٹنے کے ہیں لہذا اس مسئلہ میں شرعا دونوں طرح اختیار ہے،لہذا ہماری رائے میں یہ کہنا جائز نہیں کہ مونچھوں کو خوب اچھی مونڈنامثلہ یا بدعت ہےکیونکہ ایسا کہنا مذکورہ نص کے خلاف ہےاور رسول اللہ ﷺکی سنت صحیحہ کی موجودگی میں کسی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ 2۔انگلیوں کے جوڑوں میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے اس لیے وضو اور غسل کے موقع پر ان مقامات کو زیادہ توجہ سے صاف کرنا چاہیے اسی طرح جسم کے وہ حصے جہاں میل کچیل جمع ہوجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے غسل کے دوران میں ان کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ویسے بھی اگر ان مقامات کی طرف توجہ نہ دی جائے تو بعض اوقات وہاں پانی نہیں پہنچ پاتا اور غسل نہیں ہوتا۔ داڑھی بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کاٹا نہ جائے جس طرح مونچھوں کے بال کاٹ لیے جاتے ہیں۔داڑھی منڈوانا حرام ہے اور منڈوانے والا فاسق ہےکیونکہ وہ ان احادیث کی مخالفت کرتا ہے جن میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (خالفوا المشركين ووفروا اللحي واحفوا الشوارب) ( صحيح البخاري اللباس باب تقليم الاظفار حديث:٥٨٩٢ وصحيح مسلم الطهارة باب خصال الفطرة حديث: ٢٥٩) مشرکوں کی مخالفت کرو ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کترواؤ۔ اور حضرت ابو وریرہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ( جزوا الشوارب وارخوا اللحي وخالفوا المجوس) صحيح مسلم الطهاره باب خصال الفطرحديث:٢٦-) مونچھوں کو کترواؤ ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ داڑھی منڈوانے پر اصرار کرنا کبیرہ گناہ ہے جو شخص مندوائے اسے نصیحت کرنااور ڈاڑھی منڈوانے سے منع کرنا واجب ہےاگر ایسا کوئی شخص قیادت یا کسی دینی مرکز میں ہوتو اسے اور بھی زیادہ تاکید کے ساتھ سمجھانا ضروری ہے۔علاوہ ازیں احادیث میں مونچھوں کی کانٹ تراش کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ایک ہے احفاء جس کے معنی خوب اچھی طرح مونڈنا ہیں اور دوسرا ہے قص جس کے معنی قینچی وغیرہ سے کاٹنے کے ہیں لہذا اس مسئلہ میں شرعا دونوں طرح اختیار ہے،لہذا ہماری رائے میں یہ کہنا جائز نہیں کہ مونچھوں کو خوب اچھی مونڈنامثلہ یا بدعت ہےکیونکہ ایسا کہنا مذکورہ نص کے خلاف ہےاور رسول اللہ ﷺکی سنت صحیحہ کی موجودگی میں کسی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ 2۔انگلیوں کے جوڑوں میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے اس لیے وضو اور غسل کے موقع پر ان مقامات کو زیادہ توجہ سے صاف کرنا چاہیے اسی طرح جسم کے وہ حصے جہاں میل کچیل جمع ہوجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے غسل کے دوران میں ان کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ویسے بھی اگر ان مقامات کی طرف توجہ نہ دی جائے تو بعض اوقات وہاں پانی نہیں پہنچ پاتا اور غسل نہیں ہوتا۔