Book - حدیث 292

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الْفِطْرَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنْ الْفِطْرَةِ الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَنَتْفُ الْإِبِطِ وَقَصُّ الشَّارِبِ

ترجمہ Book - حدیث 292

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: امورفطرت کا بیان سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فطرت پانچ چیزیں ہیں،یا فرمایا: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ، (زیر ناف بالوں کی صفائی کے لئے) لوہے کی چیز استعمال کرنا، ناخن تراشنا بغلوں کے بال اکھاڑنا اور مونچھیں کاٹنا۔‘‘
تشریح : فطرت اس سے مراد دین فطرت کے وہ امور ہیں جو تمام انبیاء کرام کی سنت ہیں اور تمام انبیاء کی شریعتوں میں ان پر عمل ہوتا رہا ہے۔اس سے ان اعمال کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ان پانچوں کا تعلق انسان کی ظاہری صفائی سے ہےاور جب شریعت ان کا حکم دے تو حکم کی تعمیل سے باطنی طہارت میں بھی اضافہ ہوگا۔ 2۔ ختنہ اس سے مراد ہے مرد کے عضو خاص سے ابتدائی حصے پر موجود پردے کو کاٹ دینا حتی کہ حشفہ ( عضو کا ابتدائی حصہ) ظاہر ہوجائے۔طبی نقطہ نظر سے بھی یہ عمل بہت مفید ہے کیونکہ اس پردے کے اندر میل کچیل جمع ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پہدا ہوجاتی ہیں اور اس کی صفائی پر عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی ۔اس کے علاوہ اس کے اندر پیچاب کے قطرات رہ جاتے ہیں جن کی وجہ سے جسم اور کپڑے باپاک ہوجاتے ہیں ۔بائبل میں بھی ختنہ کو ایک دائمی شرعی حکم قرار دیا گیا ہے جو کبھی منسوخ نہیں ہوگا۔( دیکھیے:کتاب پیدائش باب:17 فقرات :9 تا 14) اسی لیے یہودی ختنہ کرتے ہیں۔عہد جدید کے بیان کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی ختنہ کیا گیا تھا۔( دیکھیے : انجیل لوقا باب:2 فقرہ:21) 3۔ استحداد (لوہا استعمال کرنا) اس سے مراد اعضائے مخصوصہ کے ارد گرد اگے ہوئے بالوں کو دور کرنا ہے،خواہ لوہے کی بنی ہوئی کسی چیز (استرے وغیرہ) سے ہو یا اس مقصد کے لیے تیار شدہ پاؤڈر یا کریم وغیرہ سے ہو۔ 4۔ بغلوں کے بال اکھاڑنا ہی مسنون ہے۔اکھاڑنے کے بعد دوبارہ صفائی کی ضرورت کافی دیر بعد ہوتی ہے البتہ مونڈنے سے بھی صفائی کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ 5۔ناخن بڑھ جائیں تو ان میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے،اس لیے صفائی کا تقاضہ بھی ہے کہ انھیں کاٹ دیا جائے۔فیشن کے طور پر ناخن بڑھالینا خلاف فطرت بھی ہے اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔جس سے نقصان اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے،نیز ناکن کاٹنے سے انسان اور حیوان میں قدرتی فرق برقرار رہتا ہے۔ 5۔مونچھیں بڑھانا عجمی غیر مسلموں کا رواج تھا۔ان کو دیکھ کر عربوں نے بھی یہ طریقہ اختیار کرلیا۔رسول اللہ ﷺ نے انھیں کاٹنے اور خوب پست کرنے کا حکم دیا ۔یہ پانچوں امور نظافت وطہارت سے تعلق رکھتے ہیں اور نظافت وطہارت تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی شریعتوں میں مطلوب اور مستحسن رہی ہے۔میلا کچیلا یا ناپاک رہنا غیر مسلموں ،مثلاً:ہندو جوگیوں یا عیسائی راہبوں کا طریقہ ہے اور ان کی خود ساختہ پابندیاں ہیں۔جن کا کسی آسمانی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ 6۔صفائی اور طہارت کے ان تمام افعال میں دائیں جانب سے شروع کرنا مسنون ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی اکرم ﷺ جوتا پہننے میں کنگھی کرنے میں پاکیزگی حاصل کرنے میں(وضو اور غسل میں) اورہرکام میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ ( صحيح البخاري الوضوء باب التيمن في الوضوء والغسل حديث:168‘وصحیح مسلم‘الطھارہ‘باب التیمن فی الطھور وغیرہ حدیث:268) فطرت اس سے مراد دین فطرت کے وہ امور ہیں جو تمام انبیاء کرام کی سنت ہیں اور تمام انبیاء کی شریعتوں میں ان پر عمل ہوتا رہا ہے۔اس سے ان اعمال کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ان پانچوں کا تعلق انسان کی ظاہری صفائی سے ہےاور جب شریعت ان کا حکم دے تو حکم کی تعمیل سے باطنی طہارت میں بھی اضافہ ہوگا۔ 2۔ ختنہ اس سے مراد ہے مرد کے عضو خاص سے ابتدائی حصے پر موجود پردے کو کاٹ دینا حتی کہ حشفہ ( عضو کا ابتدائی حصہ) ظاہر ہوجائے۔طبی نقطہ نظر سے بھی یہ عمل بہت مفید ہے کیونکہ اس پردے کے اندر میل کچیل جمع ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پہدا ہوجاتی ہیں اور اس کی صفائی پر عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی ۔اس کے علاوہ اس کے اندر پیچاب کے قطرات رہ جاتے ہیں جن کی وجہ سے جسم اور کپڑے باپاک ہوجاتے ہیں ۔بائبل میں بھی ختنہ کو ایک دائمی شرعی حکم قرار دیا گیا ہے جو کبھی منسوخ نہیں ہوگا۔( دیکھیے:کتاب پیدائش باب:17 فقرات :9 تا 14) اسی لیے یہودی ختنہ کرتے ہیں۔عہد جدید کے بیان کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی ختنہ کیا گیا تھا۔( دیکھیے : انجیل لوقا باب:2 فقرہ:21) 3۔ استحداد (لوہا استعمال کرنا) اس سے مراد اعضائے مخصوصہ کے ارد گرد اگے ہوئے بالوں کو دور کرنا ہے،خواہ لوہے کی بنی ہوئی کسی چیز (استرے وغیرہ) سے ہو یا اس مقصد کے لیے تیار شدہ پاؤڈر یا کریم وغیرہ سے ہو۔ 4۔ بغلوں کے بال اکھاڑنا ہی مسنون ہے۔اکھاڑنے کے بعد دوبارہ صفائی کی ضرورت کافی دیر بعد ہوتی ہے البتہ مونڈنے سے بھی صفائی کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ 5۔ناخن بڑھ جائیں تو ان میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے،اس لیے صفائی کا تقاضہ بھی ہے کہ انھیں کاٹ دیا جائے۔فیشن کے طور پر ناخن بڑھالینا خلاف فطرت بھی ہے اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔جس سے نقصان اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے،نیز ناکن کاٹنے سے انسان اور حیوان میں قدرتی فرق برقرار رہتا ہے۔ 5۔مونچھیں بڑھانا عجمی غیر مسلموں کا رواج تھا۔ان کو دیکھ کر عربوں نے بھی یہ طریقہ اختیار کرلیا۔رسول اللہ ﷺ نے انھیں کاٹنے اور خوب پست کرنے کا حکم دیا ۔یہ پانچوں امور نظافت وطہارت سے تعلق رکھتے ہیں اور نظافت وطہارت تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی شریعتوں میں مطلوب اور مستحسن رہی ہے۔میلا کچیلا یا ناپاک رہنا غیر مسلموں ،مثلاً:ہندو جوگیوں یا عیسائی راہبوں کا طریقہ ہے اور ان کی خود ساختہ پابندیاں ہیں۔جن کا کسی آسمانی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ 6۔صفائی اور طہارت کے ان تمام افعال میں دائیں جانب سے شروع کرنا مسنون ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی اکرم ﷺ جوتا پہننے میں کنگھی کرنے میں پاکیزگی حاصل کرنے میں(وضو اور غسل میں) اورہرکام میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ ( صحيح البخاري الوضوء باب التيمن في الوضوء والغسل حديث:168‘وصحیح مسلم‘الطھارہ‘باب التیمن فی الطھور وغیرہ حدیث:268)