Book - حدیث 2918

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ التَّلْبِيَةِ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَأَبُو أُسَامَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ تَلَقَّفْتُ التَّلْبِيَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ قَالَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَزِيدُ فِيهَا لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ

ترجمہ Book - حدیث 2918

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: لبیک پکارنا حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے‘انھوں نے فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ سے تلبیہ سیکھا۔ آپ کہہ رہے تھے: ]لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ، لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ[’’حاضر ہوں‘اے اللہ !میں حاضر ہوں۔میں حاضر ہوں ‘تیرا کوئی شریک نہیں‘میں حاضر ہوں۔تعریفیں اور نعمتیں تیری ہیں اور بادشاہی بھی۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ امام نافع ؓ نے فرمایا:حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ان الفاظ کا کرتے تھے:] لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ! لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ لَبَّيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ[ ’’حاضر ہوں!حاضر ہوں!تیری اطاعت سے بہرہ ور ہوں۔اور ہر قسم کی خیر تیرے ہاتھوں میں ہے۔میں حاضر ہوں!(دل میں ) تیری ہی لگن ہے اور (تیرے ہی لیے)عمل۔‘‘
تشریح : 1۔ تلبیہ حج کے عظیم مظاہرے میں سے ہے جس سے اللہ کی محبت اس کی لگن اور اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات برداشت کرنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے، 2۔نماز کے بعد سواری پر سوار ہوتے وقت اور بلندی پر چڑھتے وقت لبیک کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔ 3۔تمام مسلمانوں کا بیک وقت لبیک کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے سامنے سب برابر ہیں سب اللہ کی رضا کے طالب ہیں رنگ نسل زبان اور علاقے کے امتیازات اسلام کے عالمی تعارف کے مقابلے میں سب ہیچ ہیں۔ 4۔اس میں بھی یہ سبق ہے کہ عام زندگی میں مسلمانوں کو اس طرح اتحاد واتفاق سے کام لینا چاہیے اور کسی مسلمان کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ 5۔تلبیہ میں توحید کا بار بار اقرار دل میں عقیدہ توحید کو پختہ کرنے کے لیے ہے۔ 6۔تلبیہ کے مختلف الفاظ مروی ہیں۔ان میں سے جو الفاظ چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔اور یہ بھی درست ہے کہ کبھی ایک روایت کے مطابق تلبیہ پڑھا جائے اور کبھی دوسری حدیث کے مطابق۔ 1۔ تلبیہ حج کے عظیم مظاہرے میں سے ہے جس سے اللہ کی محبت اس کی لگن اور اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات برداشت کرنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے، 2۔نماز کے بعد سواری پر سوار ہوتے وقت اور بلندی پر چڑھتے وقت لبیک کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔ 3۔تمام مسلمانوں کا بیک وقت لبیک کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے سامنے سب برابر ہیں سب اللہ کی رضا کے طالب ہیں رنگ نسل زبان اور علاقے کے امتیازات اسلام کے عالمی تعارف کے مقابلے میں سب ہیچ ہیں۔ 4۔اس میں بھی یہ سبق ہے کہ عام زندگی میں مسلمانوں کو اس طرح اتحاد واتفاق سے کام لینا چاہیے اور کسی مسلمان کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ 5۔تلبیہ میں توحید کا بار بار اقرار دل میں عقیدہ توحید کو پختہ کرنے کے لیے ہے۔ 6۔تلبیہ کے مختلف الفاظ مروی ہیں۔ان میں سے جو الفاظ چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔اور یہ بھی درست ہے کہ کبھی ایک روایت کے مطابق تلبیہ پڑھا جائے اور کبھی دوسری حدیث کے مطابق۔