كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ الْإِحْرَامِ صحیح الإسناد حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ إِنِّي عِنْدَ ثَفِنَاتِ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَلَمَّا اسْتَوَتْ بِهِ قَائِمَةً قَالَ لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحِجَّةٍ مَعًا وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ
کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل
باب: احرام کا بیان
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ‘انھوں نے فرمایا:میں درخت کے پاس (ذوالحلیفہ میں)رسول اللہ ﷺکی اونٹنی کے گھٹنوں کے پاس تھا۔جب وہ آپ کو لے کر پوری طرح کھڑی ہو گئی تو آ پ نے فرمایا:’’حج اور عمرہ دونوں کے لیے لبیک۔‘‘ اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
تشریح :
1۔ رسول اللہ ﷺ طہر کی نماز پڑھ کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے۔عصر کی نماز ذوالحليفه میں ادا کی پھر صبح تک یہیں قیام فرمایا۔(سنن ابي داؤد المناسك باب وقت الاحرام حديث:١٧٧٣)
2۔رسول اللہﷺ نے کب لبیک پکارنا شروع کیا اس کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مختلف اقوال ہیں۔اس موضوع پر بات کرتے ہوئےحضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا:رسول اللہﷺ حج کے لیے روانہ ہوئے تو جب آپ نے ذوالحليفه کی مسجد میں نماز پڑھی اسی مقام پر احرام کی نیت کرلی چنانچہ جب دو رکعتوں سے فارغ ہوئے تو حج کا تلبیہ پکارا۔کچھ لوگوں نے آپ سے یہ لبیک سنا اور یاد رکھا(کہ نبی ﷺ نے مسجد میں لبیک کی ابتداء کی) پھر آپ ﷺ سوار ہوئے چنانچہ جب اپ کی اونٹنی آپ کو لیکر کھڑی ہوئی ،تو آپ نے لبیک پکارا۔کچھ لوگوں نے آپ کو اسی وقت (لبیک پکارتے) دیکھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جماعت در جماعت آتے تھے انھوں نے اونٹنی کے کھڑے ہونے پرنبیﷺ کو لبیک پکارتے سنا۔تو(بعد میں ) میں کہا کہ رسول اللہﷺ نے تو اس وقت لبیک پکارنا شروع کیا تھا جب آپ کی اونٹبے آپ کو لیکر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ روانہ ہوگئے۔آپ بيداء کی بلند سطح پر چڑھے تو لبیک پکارا۔کچھ لوگوں نے اس وقت آپ کو ( لبیک پکارتے) دیکھا تو انھوں نے(بعد میں روایت کرتے ہوئے) کہا کہ نبیﷺ نے تو اسوقت لبیک پکارنا شروع کیا تھا جب آپ بيداء کی بلند سطح پر پہنچے ۔قسم ہے اللہ کی ! آپ نے اپنی نماز کی جگہ (لبیک پکار کر) نیت کرلی تھی پھر جب آپ کی اونٹنی آپ کو لیکے کھڑی ہوئی تو(پھر بلند آواز سے) لبیک پکارا پھر جب بيداء کی بلند سطح پر پہنچے تب بھی ( بلند آواز سے ) لبیک پکارا۔ (سنن ابي داود المناسك باب في وقت الاحرام حديث:١٧٧-)
3۔رسول اللہ ﷺ کی نیت حج قران کی تھی اس لیے آپ نے حج و عمرہ دونوں کا نام لیلر تلبیہ شروع کیا۔جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہیں تھی انھیں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کے بعد احرام کھولنے کا حکم دے دیا تھا۔
1۔ رسول اللہ ﷺ طہر کی نماز پڑھ کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے۔عصر کی نماز ذوالحليفه میں ادا کی پھر صبح تک یہیں قیام فرمایا۔(سنن ابي داؤد المناسك باب وقت الاحرام حديث:١٧٧٣)
2۔رسول اللہﷺ نے کب لبیک پکارنا شروع کیا اس کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مختلف اقوال ہیں۔اس موضوع پر بات کرتے ہوئےحضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا:رسول اللہﷺ حج کے لیے روانہ ہوئے تو جب آپ نے ذوالحليفه کی مسجد میں نماز پڑھی اسی مقام پر احرام کی نیت کرلی چنانچہ جب دو رکعتوں سے فارغ ہوئے تو حج کا تلبیہ پکارا۔کچھ لوگوں نے آپ سے یہ لبیک سنا اور یاد رکھا(کہ نبی ﷺ نے مسجد میں لبیک کی ابتداء کی) پھر آپ ﷺ سوار ہوئے چنانچہ جب اپ کی اونٹنی آپ کو لیکر کھڑی ہوئی ،تو آپ نے لبیک پکارا۔کچھ لوگوں نے آپ کو اسی وقت (لبیک پکارتے) دیکھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جماعت در جماعت آتے تھے انھوں نے اونٹنی کے کھڑے ہونے پرنبیﷺ کو لبیک پکارتے سنا۔تو(بعد میں ) میں کہا کہ رسول اللہﷺ نے تو اس وقت لبیک پکارنا شروع کیا تھا جب آپ کی اونٹبے آپ کو لیکر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ روانہ ہوگئے۔آپ بيداء کی بلند سطح پر چڑھے تو لبیک پکارا۔کچھ لوگوں نے اس وقت آپ کو ( لبیک پکارتے) دیکھا تو انھوں نے(بعد میں روایت کرتے ہوئے) کہا کہ نبیﷺ نے تو اسوقت لبیک پکارنا شروع کیا تھا جب آپ بيداء کی بلند سطح پر پہنچے ۔قسم ہے اللہ کی ! آپ نے اپنی نماز کی جگہ (لبیک پکار کر) نیت کرلی تھی پھر جب آپ کی اونٹنی آپ کو لیکے کھڑی ہوئی تو(پھر بلند آواز سے) لبیک پکارا پھر جب بيداء کی بلند سطح پر پہنچے تب بھی ( بلند آواز سے ) لبیک پکارا۔ (سنن ابي داود المناسك باب في وقت الاحرام حديث:١٧٧-)
3۔رسول اللہ ﷺ کی نیت حج قران کی تھی اس لیے آپ نے حج و عمرہ دونوں کا نام لیلر تلبیہ شروع کیا۔جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہیں تھی انھیں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کے بعد احرام کھولنے کا حکم دے دیا تھا۔