Book - حدیث 291

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ السِّوَاكِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ كَنِيزٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَاجٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ إِنَّ أَفْوَاهَكُمْ طُرُقٌ لِلْقُرْآنِ فَطَيِّبُوهَا بِالسِّوَاكِ

ترجمہ Book - حدیث 291

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: مسواک کا بیان سیدنا علی بن ابو طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: تمہارے منہ قرآن کے راستے ہیں، لہٰذا انہیں مسواک کے ذریعے سے پاک صاف رکھا کرو۔
تشریح : 1۔یہ حدیث موقوف ہے یعنی صحابی کا قول ہے نبی اکرم ﷺ کا ارشاد نہیں،تاہم مسواک کی فضیلت واہمیت مرفوع احادیث سے ثابت ہے۔ 2۔ تمھارے منہ قرآن کے راستے ہیں کا مطلب ایک دوسری روایت کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوجاتا ہے حتی کہ قرآن سنتے سنتے اتنا قریب ہوجاتا ہےکہ فرشتہ اپنا منہ پڑھنے والے کے منہ پر رکھ دیتا ہے پھر پڑھنے والا جو آیت بھی پڑھتا ہے تو وہ فرشتے کے اندر چلی جاتی ہے،اس لیے فرمایا کہ قرآن پڑھتے وقت منہ کو صاف رکھو۔(الصحیحة حديث:١٢١٣) اسی روایت کی بنیاد پر شیخ البانی نے اس کی تصحیح بھی کی ہے،بہرحال قرآن مجید کے احترام کا تقاضہ یہ ہے کہ منہ کو پاک صاف رکھاجائے۔ 3۔منہ کو پاک صاف رکھنے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ بدبودار اشیاء سے پرہیز کیا جائے۔رسول اللہ ﷺ پیاز وغیرہ سے پرہیز فرماتے تھے حالانکہ وہ حرام نہیں ،اس لیے منشیات سےبدرجہ اولی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہ حرام بھی ہیں اور بدبودار بھی۔سگریٹ اور تمباکو وغیرہ بھی سخت بدبودار اشیاء ہیں اور ان میں کوئی فائدہ بھی نہیں جب کہ نقصانات بےشمار ہیں،اس لیے ان کا استعمال بےجا مال ضائع کرنے کے تحت آتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:(ولاتبذر تبذيرا ان المبذرين كانوا اخوان الشياطين وكان الشيطان لربه كفورا) ( بني اسرائيل: ١٧/٢٦/٢٧) اور بےجا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ اسی طرح گالی گلوچ فحش کلامی جھوٹ فریب اور اس طرح کے دوسرے اعمال سے بھی منہ کو پاک رکھنا ضروری ہے۔ 1۔یہ حدیث موقوف ہے یعنی صحابی کا قول ہے نبی اکرم ﷺ کا ارشاد نہیں،تاہم مسواک کی فضیلت واہمیت مرفوع احادیث سے ثابت ہے۔ 2۔ تمھارے منہ قرآن کے راستے ہیں کا مطلب ایک دوسری روایت کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوجاتا ہے حتی کہ قرآن سنتے سنتے اتنا قریب ہوجاتا ہےکہ فرشتہ اپنا منہ پڑھنے والے کے منہ پر رکھ دیتا ہے پھر پڑھنے والا جو آیت بھی پڑھتا ہے تو وہ فرشتے کے اندر چلی جاتی ہے،اس لیے فرمایا کہ قرآن پڑھتے وقت منہ کو صاف رکھو۔(الصحیحة حديث:١٢١٣) اسی روایت کی بنیاد پر شیخ البانی نے اس کی تصحیح بھی کی ہے،بہرحال قرآن مجید کے احترام کا تقاضہ یہ ہے کہ منہ کو پاک صاف رکھاجائے۔ 3۔منہ کو پاک صاف رکھنے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ بدبودار اشیاء سے پرہیز کیا جائے۔رسول اللہ ﷺ پیاز وغیرہ سے پرہیز فرماتے تھے حالانکہ وہ حرام نہیں ،اس لیے منشیات سےبدرجہ اولی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہ حرام بھی ہیں اور بدبودار بھی۔سگریٹ اور تمباکو وغیرہ بھی سخت بدبودار اشیاء ہیں اور ان میں کوئی فائدہ بھی نہیں جب کہ نقصانات بےشمار ہیں،اس لیے ان کا استعمال بےجا مال ضائع کرنے کے تحت آتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:(ولاتبذر تبذيرا ان المبذرين كانوا اخوان الشياطين وكان الشيطان لربه كفورا) ( بني اسرائيل: ١٧/٢٦/٢٧) اور بےجا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ اسی طرح گالی گلوچ فحش کلامی جھوٹ فریب اور اس طرح کے دوسرے اعمال سے بھی منہ کو پاک رکھنا ضروری ہے۔