كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ الْوَفَاءِ بِالْبَيْعَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ حَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ تَسُوسُهُمْ أَنْبِيَاؤُهُمْ كُلَّمَا ذَهَبَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَأَنَّهُ لَيْسَ كَائِنٌ بَعْدِي نَبِيٌّ فِيكُمْ قَالُوا فَمَا يَكُونُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُوا قَالُوا فَكَيْفَ نَصْنَعُ قَالَ أَوْفُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَدُّوا الَّذِي عَلَيْكُمْ فَسَيَسْأَلُهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْ الَّذِي عَلَيْهِمْ
کتاب: جہاد سے متعلق احکام ومسائل
باب: بیعت پرقائم رہنا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےرسول اللہﷺ نے فرمایا:بنی اسرائیل کے(انتظامی معاشرتی دینی اور دنیاوی)امور کی دیکھ بھال ان کے انبیاء کرتے تھے۔جب کوئی نبی فوت ہوجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوجاتا۔)لیکن)میرے بعد تمہارے اندر کوئی نبی آنے والا نہیں۔صحابہ کرام نےعرض کیا:اے اللہ کے رسول پھر(ان معاملات کا) کیا ہوگا؟آپ نے فرمایا خلفاء ہوں گےاوربہت زیادہ ہوگےانھوں نے عرض کیا:پھر ہم کیا کریں؟فرمایا:پہلے خلیفہ کی بیعت پر قائم رہو پھر اسے بعدجو(بیعت کے لحاظ سے)پہلا ہو۔تم پرجو فرائض ہیں ادا کروان کے فرائض کے بارے اللہ تعالیٰ ان سے بازپرس فرمائے گا۔
تشریح :
1۔سیاست کا مطلب ہے : کسی چیز یا (جانور وغیرہ) یا افراد سے متعلق وہ کام انجام دینا جس میں ان کے حالات کی اصلاح (اور ان کی ضروریات کی تکمیل ) ہو۔ (نهايه ابناثير)
2۔قوم کے اجتماعی معاملات کی اصلاح اور دیکھ بھال اسلامی سلطنت کا انتطام،رعیت کی رہنمائی بنیادی طور پر انبیاء کا فریضہ ہے۔
3۔ رسول اللہ ﷺ چونکہ آخری نبی ہیں اس لیے اب یہ منسب علمائے کرام کا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق ملک کا انتظام کریں اور عوام کی رہنمائی کریں۔
4۔علمائے کرام کا یہ کام نہیں کہ عوام کے جذبات واحساسات کے مطابق کام کریں بلکہ ان کا اصل فریضہ یہ ہے کہ ان کے جذبات کو صحیح رخ پر ڈال کر ان کے تعاون سے معاشرے کی اصلاح اور دین کی سر بلندی کا مقصد حاصل کریں۔
5۔ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ بنانا درست نہیں۔پہلے کی وفات کے بعد دوسرا شخص خلیفہ مقرر کیا جائے گا اور اس کی بیعت کی جائے گی۔
6۔شرعی امیر کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔
7۔اگر امیر سے اس کے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتویہ اس بات کا جواز نہیں کہ رعیت بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرنے لگے۔
1۔سیاست کا مطلب ہے : کسی چیز یا (جانور وغیرہ) یا افراد سے متعلق وہ کام انجام دینا جس میں ان کے حالات کی اصلاح (اور ان کی ضروریات کی تکمیل ) ہو۔ (نهايه ابناثير)
2۔قوم کے اجتماعی معاملات کی اصلاح اور دیکھ بھال اسلامی سلطنت کا انتطام،رعیت کی رہنمائی بنیادی طور پر انبیاء کا فریضہ ہے۔
3۔ رسول اللہ ﷺ چونکہ آخری نبی ہیں اس لیے اب یہ منسب علمائے کرام کا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق ملک کا انتظام کریں اور عوام کی رہنمائی کریں۔
4۔علمائے کرام کا یہ کام نہیں کہ عوام کے جذبات واحساسات کے مطابق کام کریں بلکہ ان کا اصل فریضہ یہ ہے کہ ان کے جذبات کو صحیح رخ پر ڈال کر ان کے تعاون سے معاشرے کی اصلاح اور دین کی سر بلندی کا مقصد حاصل کریں۔
5۔ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ بنانا درست نہیں۔پہلے کی وفات کے بعد دوسرا شخص خلیفہ مقرر کیا جائے گا اور اس کی بیعت کی جائے گی۔
6۔شرعی امیر کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔
7۔اگر امیر سے اس کے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتویہ اس بات کا جواز نہیں کہ رعیت بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرنے لگے۔