Book - حدیث 287

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ السِّوَاكِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ

ترجمہ Book - حدیث 287

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: مسواک کا بیان سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘
تشریح : 1۔مشقت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلي صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطرہ محسوس کیا کہاس پر عمل کرنا امت کے لیے دشوار ہوگا کیونکہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جب مسواک موجود نہ ہو یا آسانی سے دستیاب نہ ہوتو لوگوں کے لیے مشکل بن جائے گی۔ 2۔حکم دینے کا مطلب ہے کہ ضروری قرار دےدینا کیونکہ استحبابی حکم تو اب بھی موجود ہے لیکن واجب نہیں کہ اس کے بغیر وضو ہی نہ ہو۔ 3۔رسول اللہﷺ امت کے حق میں انتہائی شفیق تھے۔اس لیے آپ نے حسب امکان مشکل احکام نہیں دیے۔آپ اللہ تعالی سے بھی یہی دعائیں کرتے رہے کہ مشکل احکام میں نرمی کی جائے جیسا کہ معراج کی رات اللہ تعالی کی بارگاہ میں باربار درخواست فرماکر پچاس نمازوں کے حکم میں تخفیف کروائی۔ 4۔ شریعت محمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ اس میں آسانیاں بہم پہنچائی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:(اني ارسلت بحنيفه سمحة) ( مسند احمد:٢/١١٦) بلاشبہ مجھے آسان حنفی دین دے کر بھیجا گیا ہے تاہم آسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں جو نفس پر شاق ہو،کیونکہ نفس امارہ تو ہر نیکی سے بدکتا اور ہر گناہ کی طرف بھاگتا ہے۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم پر عمل نہیں کرنا چاہتے اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ مجبوری ہے اور دین میں تنگی نہیں ۔یہ طرز عمل درست نہیں اپنے نفس کی پیروی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ( افتومنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزي في الحيوة الدنيا ويوم القيامه يردون الي اشد العذاب البقرة :٢/٨٥) كيا تم کچھ کتاب پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کا انکار کردیتے ہو؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کام کرے اس کا بدل۔ 5۔ ہر نماز کے وقت ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر وضو سے پہلے مسواک نہیں کی گئی لیکن نماز شروع کرتے وقت مسواک کرلی ہے تو پھر بھی درست ہے۔ 6۔اس روایت سے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔ 1۔مشقت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ نی یہ خطرہ محسوس کیا کہاس پر عمل کرنا امت کے لیے دشوار ہوگا کیونکہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جب مسواک موجود نہ ہو یا آسانی سے دستیاب نہ ہوتو لوگوں کے لیے مشکل بن جائے گی۔ 2۔حکم دینے کا مطلب ہے کہ ضروری قرار دےدینا کیونکہ استحبابی حکم تو اب بھی موجود ہے لیکن واجب نہیں کہ اس کے بغیر وضو ہی نہ ہو۔ 3۔رسول اللہﷺ امت کے حق میں انتہائی شفیق تھے۔اس لیے آپ نے حسب امکان مشکل احکام نہیں دیے۔آپ اللہ تعالی سے بھی یہی دعائیں کرتے رہے کہ مشکل احکام میں نرمی کی جائے جیسا کہ معراج کی رات اللہ تعالی کی بارگاہ میں باربار درخواست فرماکر پچاس نمازوں کے حکم میں تخفیف کروائی۔ 4۔ شریعت محمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ اس میں آسانیاں بہم پہنچائی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:(اني ارسلت بحنيفه سمحة) ( مسند احمد:٢/١١٦) بلاشبہ مجھے آسان حنفی دین دے کر بھیجا گیا ہے تاہم آسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں جو نفس پر شاق ہو،کیونکہ نفس امارہ تو ہر نیکی سے بدکتا اور ہر گناہ کی طرف بھاگتا ہے۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم پر عمل نہیں کرنا چاہتے اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ مجبوری ہے اور دین میں تنگی نہیں ۔یہ طرز عمل درست نہیں اپنے نفس کی پیروی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ( افتومنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزي في الحيوة الدنيا ويوم القيامه يردون الي اشد العذاب البقرة :٢/٨٥) كيا تم کچھ کتاب پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کا انکار کردیتے ہو؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کام کرے اس کا بدل۔ 5۔ ہر نماز کے وقت ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر وضو سے پہلے مسواک نہیں کی گئی لیکن نماز شروع کرتے وقت مسواک کرلی ہے تو پھر بھی درست ہے۔ 6۔اس روایت سے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔ 1۔مشقت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلي صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطرہ محسوس کیا کہاس پر عمل کرنا امت کے لیے دشوار ہوگا کیونکہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جب مسواک موجود نہ ہو یا آسانی سے دستیاب نہ ہوتو لوگوں کے لیے مشکل بن جائے گی۔ 2۔حکم دینے کا مطلب ہے کہ ضروری قرار دےدینا کیونکہ استحبابی حکم تو اب بھی موجود ہے لیکن واجب نہیں کہ اس کے بغیر وضو ہی نہ ہو۔ 3۔رسول اللہﷺ امت کے حق میں انتہائی شفیق تھے۔اس لیے آپ نے حسب امکان مشکل احکام نہیں دیے۔آپ اللہ تعالی سے بھی یہی دعائیں کرتے رہے کہ مشکل احکام میں نرمی کی جائے جیسا کہ معراج کی رات اللہ تعالی کی بارگاہ میں باربار درخواست فرماکر پچاس نمازوں کے حکم میں تخفیف کروائی۔ 4۔ شریعت محمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ اس میں آسانیاں بہم پہنچائی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:(اني ارسلت بحنيفه سمحة) ( مسند احمد:٢/١١٦) بلاشبہ مجھے آسان حنفی دین دے کر بھیجا گیا ہے تاہم آسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں جو نفس پر شاق ہو،کیونکہ نفس امارہ تو ہر نیکی سے بدکتا اور ہر گناہ کی طرف بھاگتا ہے۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم پر عمل نہیں کرنا چاہتے اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ مجبوری ہے اور دین میں تنگی نہیں ۔یہ طرز عمل درست نہیں اپنے نفس کی پیروی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ( افتومنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزي في الحيوة الدنيا ويوم القيامه يردون الي اشد العذاب البقرة :٢/٨٥) كيا تم کچھ کتاب پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کا انکار کردیتے ہو؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کام کرے اس کا بدل۔ 5۔ ہر نماز کے وقت ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر وضو سے پہلے مسواک نہیں کی گئی لیکن نماز شروع کرتے وقت مسواک کرلی ہے تو پھر بھی درست ہے۔ 6۔اس روایت سے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔ 1۔مشقت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ نی یہ خطرہ محسوس کیا کہاس پر عمل کرنا امت کے لیے دشوار ہوگا کیونکہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جب مسواک موجود نہ ہو یا آسانی سے دستیاب نہ ہوتو لوگوں کے لیے مشکل بن جائے گی۔ 2۔حکم دینے کا مطلب ہے کہ ضروری قرار دےدینا کیونکہ استحبابی حکم تو اب بھی موجود ہے لیکن واجب نہیں کہ اس کے بغیر وضو ہی نہ ہو۔ 3۔رسول اللہﷺ امت کے حق میں انتہائی شفیق تھے۔اس لیے آپ نے حسب امکان مشکل احکام نہیں دیے۔آپ اللہ تعالی سے بھی یہی دعائیں کرتے رہے کہ مشکل احکام میں نرمی کی جائے جیسا کہ معراج کی رات اللہ تعالی کی بارگاہ میں باربار درخواست فرماکر پچاس نمازوں کے حکم میں تخفیف کروائی۔ 4۔ شریعت محمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ اس میں آسانیاں بہم پہنچائی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:(اني ارسلت بحنيفه سمحة) ( مسند احمد:٢/١١٦) بلاشبہ مجھے آسان حنفی دین دے کر بھیجا گیا ہے تاہم آسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں جو نفس پر شاق ہو،کیونکہ نفس امارہ تو ہر نیکی سے بدکتا اور ہر گناہ کی طرف بھاگتا ہے۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم پر عمل نہیں کرنا چاہتے اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ مجبوری ہے اور دین میں تنگی نہیں ۔یہ طرز عمل درست نہیں اپنے نفس کی پیروی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ( افتومنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزي في الحيوة الدنيا ويوم القيامه يردون الي اشد العذاب البقرة :٢/٨٥) كيا تم کچھ کتاب پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کا انکار کردیتے ہو؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کام کرے اس کا بدل۔ 5۔ ہر نماز کے وقت ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر وضو سے پہلے مسواک نہیں کی گئی لیکن نماز شروع کرتے وقت مسواک کرلی ہے تو پھر بھی درست ہے۔ 6۔اس روایت سے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔