Book - حدیث 28

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ التَّوَقِّي فِي الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ قَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ قَالَ بَعَثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى الْكُوفَةِ وَشَيَّعَنَا فَمَشَى مَعَنَا إِلَى مَوْضِعٍ يُقَالُ لَهُ صِرَارٌ فَقَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ مَشَيْتُ مَعَكُمْ قَالَ قُلْنَا لِحَقِّ صُحْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِحَقِّ الْأَنْصَارِ قَالَ لَكِنِّي مَشَيْتُ مَعَكُمْ لِحَدِيثٍ أَرَدْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ بِهِ وَأَرَدْتُ أَنْ تَحْفَظُوهُ لِمَمْشَايَ مَعَكُمْ إِنَّكُمْ تَقْدَمُونَ عَلَى قَوْمٍ لِلْقُرْآنِ فِي صُدُورِهِمْ هَزِيزٌ كَهَزِيزِ الْمِرْجَلِ فَإِذَا رَأَوْكُمْ مَدُّوا إِلَيْكُمْ أَعْنَاقَهُمْ وَقَالُوا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ فَأَقِلُّوا الرِّوَايَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا شَرِيكُكُمْ

ترجمہ Book - حدیث 28

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: رسول اللہﷺسے حدیث بیان کرنے میں احتیاط کا بیان حضرت قرظہ بن کعب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ہمیں کوفہ روانہ فرمایا اور ہمیں رخصت کیا۔(اس موقع پر) آپ ہمارے ساتھ چلتے چلتے مقام‘‘صِرَار’’ تک پہنچ گئے ،تب فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کیوں تمہارے ساتھ چل کر آیا ہوں؟ ہم نے عرض کیا:(ہمارے) اصحاب رسول ﷺ ہونے کا حق سمجھتے ہوئے اور انصار کے حق( کی ادائیگی) کے خیال سے۔ فرمایا: بلکہ میں تو اس لئے تمہارے ساتھ چل کر آیا ہوں کہ میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا تھا۔ میں نے چاہا کہ میرے اس چلنے کی وجہ سے تم اسے یاد رکھو۔( تاکہ تمہیں یاد رہے کہ یہ وہ اہم نصیحت ہے جو حضرت عمر ؓ نے مدینہ سے اتنی دور ہمارے ساتھ آکر ہمیں کی تھی۔) تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہو جن کے سینے قرآن کی وجہ سے اس طرح جوش مار رہے ہیں جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے، جب وہ تمہیں دیکھیں گے تو گردنیں اٹھا کر تمہاری طرف متوجہ ہوں گے اور کہیں گے: یہ محمد ﷺ کے ساتھی ہیں۔ تو اللہ کے رسول ﷺ کی حدیثیں کم بیان کر،ا( جب تم اس پر عمل کرو گے تو) پھر میں بھی( اجر میں )تمہارا شریک ہوں گا۔
تشریح : اس روایت سے منکرین حدیث، حدیث کی اہمیت کے گھٹانے پر استدلال کرتے ہیں، لیکن یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ اگر صحیح بھی ہو تو اس سے مراد احادیث کے بیان کرنے مین احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی طرف توجہ مبذول کرانا تھا، اور یہ ایسی بات ہے جس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ گویا اس سے اصل مقصد احادیث کو تحقیق کے ساتھ بیان کرنے کی اہمیت کو بیان کرنا تھا تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط نسبت نہ ہو۔ اس روایت سے منکرین حدیث، حدیث کی اہمیت کے گھٹانے پر استدلال کرتے ہیں، لیکن یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ اگر صحیح بھی ہو تو اس سے مراد احادیث کے بیان کرنے مین احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی طرف توجہ مبذول کرانا تھا، اور یہ ایسی بات ہے جس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ گویا اس سے اصل مقصد احادیث کو تحقیق کے ساتھ بیان کرنے کی اہمیت کو بیان کرنا تھا تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط نسبت نہ ہو۔