Book - حدیث 277

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الْمُحَافَظَةِ عَلَى الْوُضُوءِ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمْ الصَّلَاةَ وَلَا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ

ترجمہ Book - حدیث 277

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: وضو کی حفاظت کرنا سیدنا ثوبان ؓ سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ سیدھی راہ پر قائم رہو اور تم (ک حقہ) قائم نہیں رہ سکو گے، اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے۔‘‘
تشریح : سیدھی راہ پر قائم رہو اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام پر قائم رہو،جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: (فلا تموتن الا وانتم مسلمون) ( البقره: ٢/١٣٢) تمھیں جب موت آئے اسلام پر آئے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ افراط تفریط سے بچ کر راہ اعتدال پر قائم رہو ۔نہ ذکر وعبادت بے پراوائی کرو نہ خود پر اتنا بوجھ ڈال لو کہ اس پر کار بند رہنا دشوار ہوجائے۔ 2۔( لن تحصوا) کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اس انداز سے نیکی کی راہ پر قائم نہیں رہ سکتا کہ اس سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد نہ ہو نہ یہ ممکن ہے کہ ذکر شکر اور عبادت کا حق ادا کرسکے۔یہ اللہ تعالی کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے: (علم الن تحصوه) (المزمل:٧٣/٢-) اسے معلوم ہے کہ تم پوری طرح نباہ نہ سکوگے رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے :( لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت علي نفسك) ( صحيح مسلم الصلاة باب مايقال في الركوع والسجود؟ حديث : ٤٨٦) ( اے اللہ ) میں تیری پوری پوری تعریف نہیں کرسکتا تو ایسے ہی ہے جیسے اپنی ثنا فرمائی۔ 3۔وضو کا قائم رہنا ٹوٹ جانا ایسی چیز ہے جس کا علم دوسروں کو عام طور پر نہیں ہوتا اور اس معاملے کو آسانی سے پوشیدہ رکھا جاسکتا ہے۔اس کا اہتمام محض اسی یقین کی بناء پرہوسکتا ہے کہ دوسرے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں اللہ تعالی سب کچھ جانتا ہے۔وضو کی حفاظت کا مطلب اولا سردیوں اور گرمیوں میں پوری طرح اعضاء کو دھونا ہے۔ ثانیاً وضو کرتے وقت اعضاء کو توجہ سے دھونا کہ کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے۔اور ثالثاً زیادہ سے زیادہ اوقات میں باوضو رہنا بھی ہو سکتا ہےاوریہ کام ایمان کی قوت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ 4۔ایمان ایک قلبی کیفیت ہے جس کا اظہاراعمال سے ہوتا ہے۔اعمال میں اہم ترین عمل نماز ہے۔فرضی نماز تو اتنا اہم عمل ہے کہ اسے کفر اوع ایمان کے درمیان امتیاز کے لیے ایک علامت قرار دیا گیا۔متقین کی سب سے اہم صفت اور اخروی فلاح وکامیابی کے لیے اولین شرط نماز کو قرار دیاگیاہے۔( دیکھیے سورۃ البقرۃ2/2/5) نفل نماز کی ایک اپنی اہمیت ہے۔حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی نے جب نبیﷺ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ جنت میں آپﷺ کی رفاقت چاہتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے اس مقام کے حصول کا طریقہ بتایا اور فرمایا: ( فاعني علي نفسك بكثرة السجود ) (صحيح مسلم الصلاة باب فضل السجود والحث عليه حديث:٤٨٩) سجدوں کی کثرت کے ذریعے سے اپنے نفس کے خلاف میری مدد کرو سیدھی راہ پر قائم رہو اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام پر قائم رہو،جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: (فلا تموتن الا وانتم مسلمون) ( البقره: ٢/١٣٢) تمھیں جب موت آئے اسلام پر آئے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ افراط تفریط سے بچ کر راہ اعتدال پر قائم رہو ۔نہ ذکر وعبادت بے پراوائی کرو نہ خود پر اتنا بوجھ ڈال لو کہ اس پر کار بند رہنا دشوار ہوجائے۔ 2۔( لن تحصوا) کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اس انداز سے نیکی کی راہ پر قائم نہیں رہ سکتا کہ اس سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد نہ ہو نہ یہ ممکن ہے کہ ذکر شکر اور عبادت کا حق ادا کرسکے۔یہ اللہ تعالی کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے: (علم الن تحصوه) (المزمل:٧٣/٢-) اسے معلوم ہے کہ تم پوری طرح نباہ نہ سکوگے رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے :( لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت علي نفسك) ( صحيح مسلم الصلاة باب مايقال في الركوع والسجود؟ حديث : ٤٨٦) ( اے اللہ ) میں تیری پوری پوری تعریف نہیں کرسکتا تو ایسے ہی ہے جیسے اپنی ثنا فرمائی۔ 3۔وضو کا قائم رہنا ٹوٹ جانا ایسی چیز ہے جس کا علم دوسروں کو عام طور پر نہیں ہوتا اور اس معاملے کو آسانی سے پوشیدہ رکھا جاسکتا ہے۔اس کا اہتمام محض اسی یقین کی بناء پرہوسکتا ہے کہ دوسرے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں اللہ تعالی سب کچھ جانتا ہے۔وضو کی حفاظت کا مطلب اولا سردیوں اور گرمیوں میں پوری طرح اعضاء کو دھونا ہے۔ ثانیاً وضو کرتے وقت اعضاء کو توجہ سے دھونا کہ کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے۔اور ثالثاً زیادہ سے زیادہ اوقات میں باوضو رہنا بھی ہو سکتا ہےاوریہ کام ایمان کی قوت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ 4۔ایمان ایک قلبی کیفیت ہے جس کا اظہاراعمال سے ہوتا ہے۔اعمال میں اہم ترین عمل نماز ہے۔فرضی نماز تو اتنا اہم عمل ہے کہ اسے کفر اوع ایمان کے درمیان امتیاز کے لیے ایک علامت قرار دیا گیا۔متقین کی سب سے اہم صفت اور اخروی فلاح وکامیابی کے لیے اولین شرط نماز کو قرار دیاگیاہے۔( دیکھیے سورۃ البقرۃ2/2/5) نفل نماز کی ایک اپنی اہمیت ہے۔حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی نے جب نبیﷺ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ جنت میں آپﷺ کی رفاقت چاہتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے اس مقام کے حصول کا طریقہ بتایا اور فرمایا: ( فاعني علي نفسك بكثرة السجود ) (صحيح مسلم الصلاة باب فضل السجود والحث عليه حديث:٤٨٩) سجدوں کی کثرت کے ذریعے سے اپنے نفس کے خلاف میری مدد کرو