Book - حدیث 2730

كِتَابُ الْفَرَائِضِ بَابُ مِيرَاثِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ قَالَ وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ فَكَانَ عُمَرُ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ يَقُولُ لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ قَالَ أُسَامَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ

ترجمہ Book - حدیث 2730

کتاب: وراثت سے متعلق احکام ومسائل باب: مشرکوں کےترکےمیں مسلمانوں کاحصہ کتناہے؟ اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مکہ میں اپنے گھر میں تشریف رکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان گھر چھوڑا ہے؟‘‘ ابو طالب کی وراثت عقیل اور طالب کو ملی تھی اور جعفر اور علی ؓ کو وراثت میں سے کچھ نہیں ملا تھا کیونکہ یہ دونوں مسلمان تھے اور عقیل اور طالب کافر تھے۔ عمر ؓ اسی وجہ سے کہا کرتے تھے: مومن کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ اور اسامہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح : 1۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آیا۔ (صحیح البخاری، الجہاد، باب : اذا اسلم قوم فی دارالحرب، ولہم مال وارضون فہی لہم، حدیث:3058)۔ 2۔جب ابوطالب کی وفات ہوئی اس وقت عقیل﷜ مسلمان نہیں تھے، اس لیے عقیل ﷜ کو بھی وراثت میں سے حصہ ملا۔ حضرت علی اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہما مسلمان تھے، اس لیے انہوں نے اپنے والد ابوطالب کے وراثت سے حصہ نہ لیا۔ حضرت عقیل﷜ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔3۔ امام بخاری﷫ نے اس واقعے سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ دارالحرب میں رہنےوالا اگر مسلمان ہوجائے تو وہ اپنے گھر اور زمین وغیرہ کا بدستور مالک رہے گا۔ (صحیح البخاری، الجہاد، باب اذا اسلم قوم فی دارالحرب.....، حدیث:3058) 4۔ حافظ ابن حجر﷫ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عقیل﷜ نے یہ مکان فروخت کردیا تھا۔ (فتح الباری:3؍571) 1۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آیا۔ (صحیح البخاری، الجہاد، باب : اذا اسلم قوم فی دارالحرب، ولہم مال وارضون فہی لہم، حدیث:3058)۔ 2۔جب ابوطالب کی وفات ہوئی اس وقت عقیل﷜ مسلمان نہیں تھے، اس لیے عقیل ﷜ کو بھی وراثت میں سے حصہ ملا۔ حضرت علی اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہما مسلمان تھے، اس لیے انہوں نے اپنے والد ابوطالب کے وراثت سے حصہ نہ لیا۔ حضرت عقیل﷜ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔3۔ امام بخاری﷫ نے اس واقعے سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ دارالحرب میں رہنےوالا اگر مسلمان ہوجائے تو وہ اپنے گھر اور زمین وغیرہ کا بدستور مالک رہے گا۔ (صحیح البخاری، الجہاد، باب اذا اسلم قوم فی دارالحرب.....، حدیث:3058) 4۔ حافظ ابن حجر﷫ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عقیل﷜ نے یہ مکان فروخت کردیا تھا۔ (فتح الباری:3؍571)