كِتَابُ الْوَصَايَا بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ} [النساء: 6] حسن صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا أَجِدُ شَيْئًا وَلَيْسَ لِي مَالٌ وَلِي يَتِيمٌ لَهُ مَالٌ قَالَ كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَلَا تَقِي مَالَكَ بِمَالِهِ
کتاب: وصیت سے متعلق احکام ومسائل
باب:اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کابیان:’’اورجومحتاج ہووہ جائزحدتک کھالے۔‘‘
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میرے پاس کچھ نہیں ( گزارہ نہیں ہوتا) نہ میرے پاس کوئی مال ہے، البتہ ایک یتیم میری کفالت میں ہے، اس کا مال ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے یتیم کے مال میں سے کھا لیا کر لیکن فضول خرچی نہ کرنا۔ اور ( اس کے مال سے ) مال نہ کمانا۔‘‘ اور غالباً یہ بھی فرمایا: ’’اس کے مال کے ذریعے سے اپنا مال نہ بچانا۔‘‘
تشریح :
1۔یتیم کا مال کھا نا سخت گنا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ إِنَّ الَّذينَ يَأكُلونَ أَمولَ اليَتـمى ظُلمًا إِنَّما يَأكُلونَ فى بُطونِهِم نارًا وَسَيَصلَونَ سَعيرًا ﴾ النساء4؍10) ’ جولوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتےہیں ، وہ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب( جہنم کی) آگ میں جلیں گے۔2۔اگر یتیم کا سرپرست مفلس ہو تو وہ یتیم کے مال سے اپنے انتہائی ضروری اخراجات پورے کرسکتا ہے لیکن تعیثات اور آسائشات پر اس کا مال خرچ نہیں کرسکتا۔3۔ مفلس آدمی کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ محنت مزدوری سے اپنے اخراجات پورے کرے اور یتیم کا مال محفوظ رکھے۔4۔ یتیم کے مال کے ذریعے سے اپنا مال بچانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اپنا محفوظ رکھا۔ یا ذاتی ضروریات پراس کا مال خرچ کیا اور اپنا بچالیا۔5۔ یتیم کے مال سے تجارت کرکے یتیم کو اس کا حصہ دینا( مضاربت) درست ہے لیکن یہ درست نہیں کہ اس کے مال سے تجارت کرکے سارا نفع خود رکھ لے، یا اس کےمال کو اس طرح خرچ کرے جس طرح اپنا مال بےروک ٹوک خرچ کرتا ہے۔
1۔یتیم کا مال کھا نا سخت گنا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ إِنَّ الَّذينَ يَأكُلونَ أَمولَ اليَتـمى ظُلمًا إِنَّما يَأكُلونَ فى بُطونِهِم نارًا وَسَيَصلَونَ سَعيرًا ﴾ النساء4؍10) ’ جولوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتےہیں ، وہ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب( جہنم کی) آگ میں جلیں گے۔2۔اگر یتیم کا سرپرست مفلس ہو تو وہ یتیم کے مال سے اپنے انتہائی ضروری اخراجات پورے کرسکتا ہے لیکن تعیثات اور آسائشات پر اس کا مال خرچ نہیں کرسکتا۔3۔ مفلس آدمی کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ محنت مزدوری سے اپنے اخراجات پورے کرے اور یتیم کا مال محفوظ رکھے۔4۔ یتیم کے مال کے ذریعے سے اپنا مال بچانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اپنا محفوظ رکھا۔ یا ذاتی ضروریات پراس کا مال خرچ کیا اور اپنا بچالیا۔5۔ یتیم کے مال سے تجارت کرکے یتیم کو اس کا حصہ دینا( مضاربت) درست ہے لیکن یہ درست نہیں کہ اس کے مال سے تجارت کرکے سارا نفع خود رکھ لے، یا اس کےمال کو اس طرح خرچ کرے جس طرح اپنا مال بےروک ٹوک خرچ کرتا ہے۔