Book - حدیث 2715

كِتَابُ الْوَصَايَا بَابُ الدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ حسن حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ وَأَنْتُمْ تَقْرَءُونَهَا مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ لَيَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ

ترجمہ Book - حدیث 2715

کتاب: وصیت سے متعلق احکام ومسائل باب: وصیت پوری کرنےسےپہلےاداکیاجائے علی ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے وصیت پوری کرنے سے پہلے قرض ادا کرنے کا حکم دیا اور تم یہ آیت پڑھتے ہو (السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ) ’’اس وصیت کے بعد جو وصیت کرے یا قرض کے بعد‘‘( النساء ۱۱:۴) اور سگے بھائی ، ایک ماں کے بیٹے وارث ہوں گے، سوتیلے بھائی نہیں۔
تشریح : 1۔قرض کی اہمیت وصیت کے مقابلے میں اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ قرض زندگی میں بھی واجب الادا ہوتا ہے او رموت کے بعد بھی جبک ہ وصیت موت کے بعد ہی قابل عمل ہوتی ہے۔ قرض جتنا بھی ہو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے جب کہ وصیت اگر تہائی ترکے سے زیادہ ہوتو تہائی تک قابل عمل ہوتی ہے، زائد نہیں۔2۔ میت کے مال سے سب سے پہلے کفن دفن خرچ کیا جاتا ہے، پھر قرض ادا کیا جاتا ہے، پھر جو کچھ بچے اس کے تہائی مال یا اس سے کم کی جو وصیت ہو، وہ پوری کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد باقی ترکہ وارثوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔3۔ آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے وصیت پوری کی جائے پھر قرض ادا کیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دونوں چیزیں واجب ہیں۔ ان میں سے جو چیز پائی جائے وہ ادا کی جائے۔ اگر دونوں( وصیت اورقرض) موجود ہوں تو ترکے میں سے دونوں کی ادائیگی کرنے کے بعد باقی ترکہ تقسیم کیا جائے ۔ علاوہ ازیں وصیت کا ذکر پہلے کرنے میں یہ نکتہ بھی ہوسکتا ہے کہ وصیت پر عمل کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ قرض تو لوگ زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں۔ وصیت کو پہلے بیان کرکے واضح کردیا کہ اس پر عمل کرنے میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، گواس پرعمل قرض ادائیگی کےبعد ہی کیا جائے گا۔ 4۔ میت کے سگے بہن بھائی اس کے سوتیلے بہن بھائیوں پرمقدم ہیں۔5۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید اس کی بابت لکھا ہے کہ اسی مفہوم کی ایک حدیث حسن درجے کی پہلے گزر چکی ہے، وہ اس کی شاہد ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک مذکورہ روایت کی کوئی نہ کوئی اصل ضرورہے۔ علاوہ ازیں بعض محققین نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، لہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے ۔ مزید تفصیل کےلیےدیکھئے: (الارواء: 6؍107۔109، رقم: 1667) 1۔قرض کی اہمیت وصیت کے مقابلے میں اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ قرض زندگی میں بھی واجب الادا ہوتا ہے او رموت کے بعد بھی جبک ہ وصیت موت کے بعد ہی قابل عمل ہوتی ہے۔ قرض جتنا بھی ہو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے جب کہ وصیت اگر تہائی ترکے سے زیادہ ہوتو تہائی تک قابل عمل ہوتی ہے، زائد نہیں۔2۔ میت کے مال سے سب سے پہلے کفن دفن خرچ کیا جاتا ہے، پھر قرض ادا کیا جاتا ہے، پھر جو کچھ بچے اس کے تہائی مال یا اس سے کم کی جو وصیت ہو، وہ پوری کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد باقی ترکہ وارثوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔3۔ آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے وصیت پوری کی جائے پھر قرض ادا کیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دونوں چیزیں واجب ہیں۔ ان میں سے جو چیز پائی جائے وہ ادا کی جائے۔ اگر دونوں( وصیت اورقرض) موجود ہوں تو ترکے میں سے دونوں کی ادائیگی کرنے کے بعد باقی ترکہ تقسیم کیا جائے ۔ علاوہ ازیں وصیت کا ذکر پہلے کرنے میں یہ نکتہ بھی ہوسکتا ہے کہ وصیت پر عمل کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ قرض تو لوگ زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں۔ وصیت کو پہلے بیان کرکے واضح کردیا کہ اس پر عمل کرنے میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، گواس پرعمل قرض ادائیگی کےبعد ہی کیا جائے گا۔ 4۔ میت کے سگے بہن بھائی اس کے سوتیلے بہن بھائیوں پرمقدم ہیں۔5۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید اس کی بابت لکھا ہے کہ اسی مفہوم کی ایک حدیث حسن درجے کی پہلے گزر چکی ہے، وہ اس کی شاہد ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک مذکورہ روایت کی کوئی نہ کوئی اصل ضرورہے۔ علاوہ ازیں بعض محققین نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، لہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے ۔ مزید تفصیل کےلیےدیکھئے: (الارواء: 6؍107۔109، رقم: 1667)