Book - حدیث 2708

كِتَابُ الْوَصَايَا بَابُ الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَالْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ وَسَهْلٌ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ حَتَّى أَشْفَيْتُ عَلَى الْمَوْتِ فَعَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثُ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ

ترجمہ Book - حدیث 2708

کتاب: وصیت سے متعلق احکام ومسائل باب: تہائی ترکےکی وصیت عامر بن سعد ؓ نے اپنے والد ( سعد بن ابی وقاص ؓ) سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا: فتح مکہ کے سال میں بیمار ہو گیا حتی کہ موت کے کنارے پہنچ گیا۔ رسول اللہ ﷺ میرے عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!میرا مال بہت زیادہ ہے اور میری وارث میری صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں۔ ‘‘ میں نے کہا: آدھا؟ فرمایا: ’’نہیں، میں ںے کہا: تہائی؟ فرمای: تہائی( جائز ہے) اور تہائی بھی زیادہ ہے۔ تیرا اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑنا انہیں مفلس چھوڑ جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھیریں۔‘‘
تشریح : 1۔بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کےحقوق میں شامل ہے اور یہ بہت بڑا نیک عمل ہے 2۔ جب انسان محسوس کرے کہ اس کا آخری وقت قریب ہے تو اس وقت اسے ترکے کے تہائی حصے سے زیادہ صدقے کی وصیت نہیں کرنی چاہیے۔3۔ اگر کوئی شخص تہائی حصے سے زیادہ کی وصیت کرکے فوت ہوجائے تو اس کی وصیت پر صرف تہائی ترکےتک عمل کیا جائے گا۔(دیکھئے حدیث : 2345) 4۔ بہتر یہ ہے کہ تہائی مال سے کم وصیت کی جائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے تہائی کی اجازت دینے کے باوجود اسے ’ زیادہ‘ فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا ہے۔( دیکھئے حدیث: 2711) 1۔بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کےحقوق میں شامل ہے اور یہ بہت بڑا نیک عمل ہے 2۔ جب انسان محسوس کرے کہ اس کا آخری وقت قریب ہے تو اس وقت اسے ترکے کے تہائی حصے سے زیادہ صدقے کی وصیت نہیں کرنی چاہیے۔3۔ اگر کوئی شخص تہائی حصے سے زیادہ کی وصیت کرکے فوت ہوجائے تو اس کی وصیت پر صرف تہائی ترکےتک عمل کیا جائے گا۔(دیکھئے حدیث : 2345) 4۔ بہتر یہ ہے کہ تہائی مال سے کم وصیت کی جائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے تہائی کی اجازت دینے کے باوجود اسے ’ زیادہ‘ فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا ہے۔( دیکھئے حدیث: 2711)