Book - حدیث 27

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ التَّوَقِّي فِي الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ إِنَّمَا كُنَّا نَحْفَظُ الْحَدِيثَ وَالْحَدِيثُ يُحْفَظُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا إِذَا رَكِبْتُمْ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ فَهَيْهَاتَ

ترجمہ Book - حدیث 27

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: رسول اللہﷺسے حدیث بیان کرنے میں احتیاط کا بیان حضرت طاؤس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے سنا، انہوں نے فرمایا: ہم حدیثیں یا کیا کرتے تھے اور اللہ کے رسول ﷺ کے حدیثیں یاد کی جاتی ہیں، لیکن جب تم نے سخت اور نرم زمین پر چلنا شروع کر دیا تو( تم پر اعتماد) دور کی بات ہے۔
تشریح : (1) احادیث نبویہ شرعی حجت ہیں، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پوری کوشش اور تندہی سے حدیثیں سنتے اور یاد کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بچپن کی عمر سے گزر رہے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم حدیثیں سن سکے، البتہ بعد میں کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بہت سی ھدیثیں سن سن کر یاد کیں، حتی کہ ان کا شمار کژیر الروایت صحابہ کرام میں ہونے لگا۔ (2) اصل دلیل صرف فرمان نبوی ہے، دوسرے حضرات کے فتووں کا وہ مقام نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر مسئلہ میں قرآن و حدیث سے دلیل تلاش کرنا ضروری ہے۔ (3) صھابہ و تابعین کے اقوال سے وہاں کام لیا جا سکتا ہے جہاں حدیث نبوی نہ ملے۔ اس لیے تابعین صحابہ کرام کے اقوال بھی لکھ لیتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو مناسب نہیں سمجھا کہ حدیث نبوی کے دوتھ دوسروں کے اقوال لکھے جائیں، اس لیے توجہ دلائی کہ حدیثیں یاد کرو، اقوال اور فتوے نہیں۔ (4) سخت اور نرم زمین پر چلنے کا مطلب ہے کہ تم قابل قبول اور ناقابل قبول روایات میں امتیاز نہیں کرتے۔ (الصعب والذلول) کا یک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: تم نے اڑیل اور مطیع جانوروں پر سواری کرنا شروع کر دی۔ حالانکہ اڑیل جانور سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہر راوی سے روایت نہ لی جائے بلکہ صرف قابل اعتماد اور ثقہ حضرات کی روایت قبول کیا جائے تاکہ دانستہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے فرمائی ہی نہیں۔ (1) احادیث نبویہ شرعی حجت ہیں، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پوری کوشش اور تندہی سے حدیثیں سنتے اور یاد کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بچپن کی عمر سے گزر رہے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم حدیثیں سن سکے، البتہ بعد میں کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بہت سی ھدیثیں سن سن کر یاد کیں، حتی کہ ان کا شمار کژیر الروایت صحابہ کرام میں ہونے لگا۔ (2) اصل دلیل صرف فرمان نبوی ہے، دوسرے حضرات کے فتووں کا وہ مقام نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر مسئلہ میں قرآن و حدیث سے دلیل تلاش کرنا ضروری ہے۔ (3) صھابہ و تابعین کے اقوال سے وہاں کام لیا جا سکتا ہے جہاں حدیث نبوی نہ ملے۔ اس لیے تابعین صحابہ کرام کے اقوال بھی لکھ لیتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو مناسب نہیں سمجھا کہ حدیث نبوی کے دوتھ دوسروں کے اقوال لکھے جائیں، اس لیے توجہ دلائی کہ حدیثیں یاد کرو، اقوال اور فتوے نہیں۔ (4) سخت اور نرم زمین پر چلنے کا مطلب ہے کہ تم قابل قبول اور ناقابل قبول روایات میں امتیاز نہیں کرتے۔ (الصعب والذلول) کا یک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: تم نے اڑیل اور مطیع جانوروں پر سواری کرنا شروع کر دی۔ حالانکہ اڑیل جانور سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہر راوی سے روایت نہ لی جائے بلکہ صرف قابل اعتماد اور ثقہ حضرات کی روایت قبول کیا جائے تاکہ دانستہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے فرمائی ہی نہیں۔