Book - حدیث 2691

كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ الْعَفْوِ عَنِ الْقَاتِلِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ عِيسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النَّحَّاسِ وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي السَّرِىِّ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ ابْنِ شَوْذَبٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَتَى رَجُلٌ بِقَاتِلِ وَلِيِّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْفُ فَأَبَى فَقَالَ خُذْ أَرْشَكَ فَأَبَى قَالَ اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ قَالَ فَلُحِقَ بِهِ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ فَخَلَّى سَبِيلَهُ قَالَ فَرُئِيَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ ذَاهِبًا إِلَى أَهْلِهِ قَالَ كَأَنَّهُ قَدْ كَانَ أَوْثَقَهُ قَالَ أَبُو عُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ قَالَ ابْنُ شَوْذَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولُ اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ قَالَ ابْن مَاجَةَ هَذَا حَدِيثُ الرَّمْلِيِّينَ لَيْسَ إِلَّا عِنْدَهُمْ

ترجمہ Book - حدیث 2691

کتاب: دیتوں سے متعلق احکام ومسائل باب: قاتل کومعاف کرنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص اپنے ولی ( قریبی رشتے دار) کے قاتل کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’معاف کر دو۔‘‘ اس نے انکار کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خون بہا لے لو۔‘‘ اس نے انکار کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ اسے قتل کر دو تم بھی اس جیسے ہو۔‘‘ ایک آدمی اس کے پیچھے جا کر اسے ملا اور اسے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اسے قتل کر دو، تم بھی اس جیسے ہو۔‘‘ اس نے ( فوراٍ) اسے چھوڑ دیا۔ راوی کہتے ہیں : دیکھا گیا کہ وہ شخص تسمہ (چمڑے کی رسی) کھینچتا ہوا گھر جا رہا تھا ( راوی کے اس لفظ سے) معلوم ہوتا ہے کہ مقتول کے وارث نے اسے باندھا ہوا تھا۔ عبدالرحمن بن قاسم ؓ نے فرمایا: نبی ﷺ کے بعد کسی کو یہ کہنے کا حق حاصل نہیں: ’’اسے قتل کر دے، تو بھی اس جیسا ہے۔‘‘ امام ابن ماجہ نے فرمایا: یہ حدیث رملہ والوں ہے۔ صرف انہوں نے روایت کی ہے۔
تشریح : 1۔مقتول کے وارث کو حق حاصل ہے کہ قاتل سے قصاص لے یا معاف کردے۔2۔ قتل خطا کی صورت میں قصاص لینا درست نہیں، دیت لی جاسکتی ہے یا معاف کیا جاسکتا ہے۔3۔ قتل خطا کی صورت میں قصاص لینا خود قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔4۔ مقتول کے وارث نے پہلے یہ لفظ نہیں سنا تھا: تو بھی اسی کی طر ح ہے، اس لیے وہ قصاص کی نیت سے لے کر چلا۔جب ارشاد نبوی معلوم ہوا تو فوراً چھوڑا دیا۔5۔ نسعۃ سے مراد چمڑے کا پتلا اور لمبا ٹکڑا ہے جورسی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اردو میں اسے تسمہ بھی کہتے ہیں ۔ 6۔ حضرت عبدالرحمان بن قاسم ﷫ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے قاتل کا عذر تسلیم کرلیا تھا، اس لیے قصاص کے طور پر قتل کرنے سے منع فرمایا۔ ہم ظاہر پر عمل کے مکلف ہیں۔ اگر ایسے قرائن و دلائل موجودنہ ہوں جن سے اس کا قتل خطا ثابت ہو تو محض مجرم کے کہنے سے قتل خطا تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ 7۔’’ رملہ والوں کی حدیث‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کی جو سندیں ہیں ان سب میں رملہ سے تعلق رکھتے والے راوی موجود ہیں۔ یہ حدیث کی صحت پر شک کا اظہار نہیں بلکہ اس قسم کے نکتے علمائے حدیث کی باریک بینی پر دلالت کرتے ہیں۔ 1۔مقتول کے وارث کو حق حاصل ہے کہ قاتل سے قصاص لے یا معاف کردے۔2۔ قتل خطا کی صورت میں قصاص لینا درست نہیں، دیت لی جاسکتی ہے یا معاف کیا جاسکتا ہے۔3۔ قتل خطا کی صورت میں قصاص لینا خود قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔4۔ مقتول کے وارث نے پہلے یہ لفظ نہیں سنا تھا: تو بھی اسی کی طر ح ہے، اس لیے وہ قصاص کی نیت سے لے کر چلا۔جب ارشاد نبوی معلوم ہوا تو فوراً چھوڑا دیا۔5۔ نسعۃ سے مراد چمڑے کا پتلا اور لمبا ٹکڑا ہے جورسی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اردو میں اسے تسمہ بھی کہتے ہیں ۔ 6۔ حضرت عبدالرحمان بن قاسم ﷫ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے قاتل کا عذر تسلیم کرلیا تھا، اس لیے قصاص کے طور پر قتل کرنے سے منع فرمایا۔ ہم ظاہر پر عمل کے مکلف ہیں۔ اگر ایسے قرائن و دلائل موجودنہ ہوں جن سے اس کا قتل خطا ثابت ہو تو محض مجرم کے کہنے سے قتل خطا تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ 7۔’’ رملہ والوں کی حدیث‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کی جو سندیں ہیں ان سب میں رملہ سے تعلق رکھتے والے راوی موجود ہیں۔ یہ حدیث کی صحت پر شک کا اظہار نہیں بلکہ اس قسم کے نکتے علمائے حدیث کی باریک بینی پر دلالت کرتے ہیں۔