Book - حدیث 2658

كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ صحیح حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الدَّارِمِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مِنْ الْعِلْمِ لَيْسَ عِنْدَ النَّاسِ قَالَ لَا وَاللَّهِ مَا عِنْدَنَا إِلَّا مَا عِنْدَ النَّاسِ إِلَّا أَنْ يَرْزُقَ اللَّهُ رَجُلًا فَهْمًا فِي الْقُرْآنِ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِيهَا الدِّيَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ

ترجمہ Book - حدیث 2658

کتاب: دیتوں سے متعلق احکام ومسائل باب: مومن کوکافرکےبدلےنہ قتل کیاجائے ابو جحیفہ وہب بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں علی بن ابی طالب ؓ سے کہا: کیا آپ لوگوں کے پاس کوئی ایسا علم ہے جو ( دوسرے) لوگوں کے پاس نہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، قسم ہے اللہ کی! ہمارے پاس تو وہی کچھ ہے جو لوگوں کے پاس ہے، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی کو قرآن کی سمجھ عطا فر دے، یا جو اس نوشتے میں ہے۔ اس تحریر میں رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہوئے دیت کے مسائل تھے اور یہ ( لکھا ہوا تھا) کہ مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔
تشریح : 1۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بعض لوگوں نے خود ان کے بارے میں غلط باتیں مشہور کردی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرممکن حدتک ان غلط عقائد کی تردید فرمائی۔2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کےبارے میں مشہور ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں’’ علم باطن‘‘ عطا فرمایا تھا جو شریعت کے ظاہری علم سے مختلف ہے۔ موجود تصوف کے سلسلے بھی اسی تصور پر قائم ہیں۔ یہ غلط عقیدہ ہے۔ تزکیۂ نفس کےلیے رسول اللہﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ سب احادیث کی کتابوں میں موجود ہے ۔ یہ کوئی خفیہ علم نہیں۔3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ’’علم جفر‘‘ بھی منسوب ہے۔ جس کے ذریعے سے لوگ اپنےخیال میں ماضی اور مستقبل کی غیب کی باتیں معلوم کر لیتے ہیں۔ یہ سب بے بنیاد ہے ۔ اللہ کے سوا کسی اور کوعلم الغیب جاننے والا تسلیم کرنا قرآن کی بہت سی آیات کا انکار ہے۔4۔ قرآن مجید میں غوروتدبر کرکے علمی نکات دریافت کرنا بہت بڑی سعادت ہے۔ یہ علم حاصل کرنا اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کو سنوارنا اصل مطلوب ہے۔ 5۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حدیث نبوی تحریر کرتے اور اسے محفوظ رکھتے تھے کیونکہ وہ اسے شریعت کا لازمی حصہ سمجھتے تھے۔ اوراس پر عمل کرتے تھے۔ 6۔ اگر مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے تو قصاص کے طور پر اسے قتل کیا جائے گا، البتہ دیت دلائی جاسکتی ہے۔ 1۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بعض لوگوں نے خود ان کے بارے میں غلط باتیں مشہور کردی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرممکن حدتک ان غلط عقائد کی تردید فرمائی۔2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کےبارے میں مشہور ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں’’ علم باطن‘‘ عطا فرمایا تھا جو شریعت کے ظاہری علم سے مختلف ہے۔ موجود تصوف کے سلسلے بھی اسی تصور پر قائم ہیں۔ یہ غلط عقیدہ ہے۔ تزکیۂ نفس کےلیے رسول اللہﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ سب احادیث کی کتابوں میں موجود ہے ۔ یہ کوئی خفیہ علم نہیں۔3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ’’علم جفر‘‘ بھی منسوب ہے۔ جس کے ذریعے سے لوگ اپنےخیال میں ماضی اور مستقبل کی غیب کی باتیں معلوم کر لیتے ہیں۔ یہ سب بے بنیاد ہے ۔ اللہ کے سوا کسی اور کوعلم الغیب جاننے والا تسلیم کرنا قرآن کی بہت سی آیات کا انکار ہے۔4۔ قرآن مجید میں غوروتدبر کرکے علمی نکات دریافت کرنا بہت بڑی سعادت ہے۔ یہ علم حاصل کرنا اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کو سنوارنا اصل مطلوب ہے۔ 5۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حدیث نبوی تحریر کرتے اور اسے محفوظ رکھتے تھے کیونکہ وہ اسے شریعت کا لازمی حصہ سمجھتے تھے۔ اوراس پر عمل کرتے تھے۔ 6۔ اگر مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے تو قصاص کے طور پر اسے قتل کیا جائے گا، البتہ دیت دلائی جاسکتی ہے۔