كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ الدِّيَةِ عَلَى الْعَاقِلَةِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عَاقِلَةٌ فَفِي بَيْتِ الْمَالِ صحیح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ الشَّامِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ، أَعْقِلُ عَنْهُ وَأَرِثُهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ، يَعْقِلُ عَنْهُ وَيَرِثُهُ»
کتاب: دیتوں سے متعلق احکام ومسائل
باب: (قاتل کی )دیت برادری پر ہے اگر برادری نہ ہو تو بیت الما ل سے ادا کی جائے
مقدام ( بن معدیکرب ) شامی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کا کوئی وارث نہیں، اس کا میں وارث ہوں۔ میں اس کی دیت دوں گا اور اس کی وارثت لوں گا۔ اور جس کا کوئی وارث نہیں ، ماموں اس کا وارث ہے۔ وہ اس کی دیت دے گا اور اس کی وراثت لے گا۔
تشریح :
1۔وارثوں میں سب سے پہلے ان کو حصہ دیا جاتا ہے جن کے حصے قرآن مجید اور احادیث میں مقرر کردیے گئے ہیں۔انہیں اصحاب الفروض کہتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں ، یا ان کو دے کر باقی بچنے والا مال’’ عصبہ‘‘ کو ملتا ہے، یعنی میت کے وہ رشتے دار جن کا تعلق میت سے عورت کے واسطے سے نہ ہو، مثلاً: بھائی ، بھتیجا، چچا اور تایا وغیرہ۔ اگر عصبہ موجود نہ ہوں تو پھر’’ اولوالارحام‘‘ وارث ہوتےہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا میت سے تعلق عورت کے واسطے سے ہوتا ہے ، مثلاً: ماموں (ماں کا بھائی) ، بھانجا( بہن کا بیٹا) ، نانا( ماں کا والد) اور خالہ (ماں کی بہن) وغیرہ۔2۔ عصبہ کی عدم موجودگی میں’’ اولو الارحام‘‘ جس طرح ترکے کے حق دار ہوتے ہیں اسی طرح مالی ذمے داریوں کی ادائیگی بھی ان پر لازم ہوتی ہے،چنانچہ یہ رشتے دار اس صورت میں دیت کی ادائیگی کے بھی ذمے دار ہوتے ہیں۔ وراثت سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے دیکھئے: ’’ اسلامی قانون وراثت‘‘ از مولانا ابونعمان بشیراحمد﷾، طبع دارالسلام لاہور۔3۔ لا وارث میت کی جائیداد بیت المال کےلیے ہوتی ہے۔ نبیﷺ اسلامی حکومت کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس مال کا انتظام فرماتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین بیت المال کے ذریعے سے یہ ذمے داری پوری کرتا ہے۔
1۔وارثوں میں سب سے پہلے ان کو حصہ دیا جاتا ہے جن کے حصے قرآن مجید اور احادیث میں مقرر کردیے گئے ہیں۔انہیں اصحاب الفروض کہتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں ، یا ان کو دے کر باقی بچنے والا مال’’ عصبہ‘‘ کو ملتا ہے، یعنی میت کے وہ رشتے دار جن کا تعلق میت سے عورت کے واسطے سے نہ ہو، مثلاً: بھائی ، بھتیجا، چچا اور تایا وغیرہ۔ اگر عصبہ موجود نہ ہوں تو پھر’’ اولوالارحام‘‘ وارث ہوتےہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا میت سے تعلق عورت کے واسطے سے ہوتا ہے ، مثلاً: ماموں (ماں کا بھائی) ، بھانجا( بہن کا بیٹا) ، نانا( ماں کا والد) اور خالہ (ماں کی بہن) وغیرہ۔2۔ عصبہ کی عدم موجودگی میں’’ اولو الارحام‘‘ جس طرح ترکے کے حق دار ہوتے ہیں اسی طرح مالی ذمے داریوں کی ادائیگی بھی ان پر لازم ہوتی ہے،چنانچہ یہ رشتے دار اس صورت میں دیت کی ادائیگی کے بھی ذمے دار ہوتے ہیں۔ وراثت سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے دیکھئے: ’’ اسلامی قانون وراثت‘‘ از مولانا ابونعمان بشیراحمد﷾، طبع دارالسلام لاہور۔3۔ لا وارث میت کی جائیداد بیت المال کےلیے ہوتی ہے۔ نبیﷺ اسلامی حکومت کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس مال کا انتظام فرماتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین بیت المال کے ذریعے سے یہ ذمے داری پوری کرتا ہے۔