Book - حدیث 2628

كِتَابُ الدِّيَاتِ بَاب دِيَةِ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظَةً حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، سَمِعَهُ مِنَ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَهُوَ عَلَى دَرَجِ الْكَعْبَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَقَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، أَلَا إِنَّ قَتِيلَ الْخَطَأِ، قَتِيلَ السَّوْطِ وَالْعَصَا فِيهِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، مِنْهَا أَرْبَعُونَ خَلِفَةً، فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا، أَلَا إِنَّ كُلَّ مَأْثُرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَدَمٍ تَحْتَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ سِدَانَةِ الْبَيْتِ وَسِقَايَةِ الْحَاجِّ، أَلَا إِنِّي قَدْ أَمْضَيْتُهُمَا لِأَهْلِهِمَا كَمَا كَانَا»

ترجمہ Book - حدیث 2628

کتاب: دیتوں سے متعلق احکام ومسائل باب: قتل شبہ عمد کی دیت مغلظہ(سخت ہے) عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کعبہ کی سیڑھی پر کھڑے ہوئے ، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد کی، اور اسی اکیلے نے ( دشمنوں کی) تمام جماعتوں کو شکست دی۔ سنو! قتل خطا کی صورت میں ، یعنی کوڑے اور لاٹھی سے مرنے والے کی دیت( خون بہا) سو انٹ ہیں۔ ان میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی جن کے پیٹوں میں بچے ہوں۔ سنو! دور جاہلیت میں جو بھی چیزیں قابل فخر سمجھی جاتی تھیں اور جاہلیت میں واقع ہونے والے خون ( وہ سب) میرے ان دو قدموں کے نیچے ہیں، سوائے کعبہ شریف کی خدمت اورحاجیوں کو پانی پلا نے کے منصب کے۔ میں انہین ان کے ذمہ داروں کے لیے اسی طرح قائم رکھتا ہوں جس طرح وہ پہلے سے چلے آرہے ہیں۔
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں، ان میں سے سابقہ حدیث بھی اس کی شاہد ہے۔ اور وہ صحیح ہے، نیز شیخ البانی ﷫ نے بھی مذکورہ روایت کو حسن قراردیا ہے، لہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حج ت ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھئے:( الارواء للالبانی:7؍257)۔2۔ اللہ کے وعدے سے مراد فتح مکہ اور عرب میں اسلام کے غلبے کا وعدہ ہے جو نبئ اکرمﷺ کی زندگی میں پورا ہوا۔3۔ جماعتوں سے مراد عرب کے غیر مسلموں کے مختلف قبائل اور ان کے جتھے ہیں جن سے رسول اللہﷺ کا مقابلہ ہوا اور اللہ تعالی نے اپنے نبی کو فتح نصیب فرمائی۔4۔ اس حدیث میں قتل خطا سے مراد شبہ عمد ہے جیسا کہ کوڑے اور لاٹھی کے ذکر سے وضاحت فرمادی گئی ہے۔ 5۔ اسلام سے پہلے مکہ کے مختلف قبائل کو مختلف مذہبی عہدے حاصل تھے حو غیراسلامی ہونے کی وجہ سے منسوخ کردیے گئے، البتہ خانہ کعبہ کی خدمت اور کلید برادری کامنصب اور حاجیوں کو پانی پلانےکا منصب قائم رکھا گیا کیونکہ ان میں اسلام کے منافی عقائد و اعمال کا اثر نہیں۔6۔ زمانۂ جاہلیت میں خانہ کعبہ کی خدمت کا منصب قبیلۂ بنو عبدالدار کے پاس تھا۔ فتح مکہ کے مواقع پر اس قبیلے کی شاخ بنو شیبہ کے لوگ اس منصب پر فائز تھے۔ خانہ کعبہ کی چابی بنو شیبہ کےایک فرد حضرت عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہ کے پاس تھی۔حاجیوں کو پانی پلانا اور زم زم کا انتظام بنو ہاشم کے ہاتھ میں تھا۔ اور فتح مکہ کے مواقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ اس کے ذمہ دار تھے۔ یہ دونو منصب آج تک انہیں دو حضرات کی اولاد میں ہیں۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں، ان میں سے سابقہ حدیث بھی اس کی شاہد ہے۔ اور وہ صحیح ہے، نیز شیخ البانی ﷫ نے بھی مذکورہ روایت کو حسن قراردیا ہے، لہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حج ت ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھئے:( الارواء للالبانی:7؍257)۔2۔ اللہ کے وعدے سے مراد فتح مکہ اور عرب میں اسلام کے غلبے کا وعدہ ہے جو نبئ اکرمﷺ کی زندگی میں پورا ہوا۔3۔ جماعتوں سے مراد عرب کے غیر مسلموں کے مختلف قبائل اور ان کے جتھے ہیں جن سے رسول اللہﷺ کا مقابلہ ہوا اور اللہ تعالی نے اپنے نبی کو فتح نصیب فرمائی۔4۔ اس حدیث میں قتل خطا سے مراد شبہ عمد ہے جیسا کہ کوڑے اور لاٹھی کے ذکر سے وضاحت فرمادی گئی ہے۔ 5۔ اسلام سے پہلے مکہ کے مختلف قبائل کو مختلف مذہبی عہدے حاصل تھے حو غیراسلامی ہونے کی وجہ سے منسوخ کردیے گئے، البتہ خانہ کعبہ کی خدمت اور کلید برادری کامنصب اور حاجیوں کو پانی پلانےکا منصب قائم رکھا گیا کیونکہ ان میں اسلام کے منافی عقائد و اعمال کا اثر نہیں۔6۔ زمانۂ جاہلیت میں خانہ کعبہ کی خدمت کا منصب قبیلۂ بنو عبدالدار کے پاس تھا۔ فتح مکہ کے مواقع پر اس قبیلے کی شاخ بنو شیبہ کے لوگ اس منصب پر فائز تھے۔ خانہ کعبہ کی چابی بنو شیبہ کےایک فرد حضرت عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہ کے پاس تھی۔حاجیوں کو پانی پلانا اور زم زم کا انتظام بنو ہاشم کے ہاتھ میں تھا۔ اور فتح مکہ کے مواقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ اس کے ذمہ دار تھے۔ یہ دونو منصب آج تک انہیں دو حضرات کی اولاد میں ہیں۔