Book - حدیث 2626

كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ مَنْ قَتَلَ عَمْدًا فَرَضُوا بِالدِّيَةِ حسن حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَتَلَ عَمْدًا، دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْقَتِيلِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا، وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ، وَذَلِكَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً، وَذَلِكَ عَقْلُ الْعَمْدِ، وَمَا صُولِحُوا عَلَيْهِ، فَهُوَ لَهُمْ، وَذَلِكَ تَشْدِيدُ الْعَقْلِ»

ترجمہ Book - حدیث 2626

کتاب: دیتوں سے متعلق احکام ومسائل باب: قتل عمد کی صورت میں وارثوں کی خون بہا لینے پر رضا مندی عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے جان بوجھ کر قتل کیا، اسے مقتول کے وارثوں کے حوالے کر دیا جائے گا، وہ چاہیں تو ( قصاص کے طور پر) قتل کر دیں ، چاہیں تو دیت لے لیں۔ اور دیت کی مقدار تین سالہ تیس اونٹنیاں، اور چار سالہ تیس اونٹنیاں اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ( کل تعداد سو) ہے۔ یہ قتل عمد کی دیت ہے۔ اگر ( اس سے کم) کسی مقدار پر صلح ہو جائے تو انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ اور یہ سخت ( مغلظہ) دیت ہے۔
تشریح : 1۔قتل عمد کی صورت میں قصاص اور دیت دونوں جائز ہیں۔2۔ دیت کی مقدار میں مقتول کے وارثوں کی رضامندی سے کمی ہوسکتی ہے، اضافہ نہیں ہوسکتا۔3۔ قتل کی تین سورتیں ہیں۔٭قتل عمد: اس سے مراد وہ قتل ہے جس میں حملہ آور کا مقصد قتل کرنا ہوتا ہے، چنانچہ وہ تلوار یا کسی ایسے ہتھیار سے حملہ کرتا ہے جسے سے مضروب عام طور پر بچ نہیں سکتا۔ اس قتل کی صورت میں دیت کی وہ مقدار مقرر ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔٭ قتل شبہ عمد:اس سے مراد یہ ہے کہ حملہ آور نے ایسی چیز سے حملہ کیا جس سے مضروب عام طور پر مرتانہیں، مثلاً لاٹھی کی ضرب، حملہ آور کا مقصد چوٹ لگانا یا زخمی کرنا تھا لیکن مصروب چوٹ یا زخموں کو برداشت نہ کرتے ہوئے فوت ہوگیا۔ اس کی دیت بھی قتل عمد کےبرابر ہے۔٭ قتل خطا:اس سے مراد یہ ہے کہ قاتل کا ارادہ اس کو قتل کرنے یا نقصان پہنچانے کا نہ تھا۔ اتفاقاً اس سے بلا ارادہ قتل ہوگیا، مثلا:کسی ہرن وغیرہ پر فائر کیا یا تیر چلایا مگر نشانہ چوک گیا، یا اچانک کو انسان سامنے آگیا اور فائر یا تیر اسے جالگا اور وہ مرگیا۔ اس کی دیت بھی سواونٹ ہی ہے لیکن ان کی عمر کم مقرر کی گئی ہے۔ اور حاملہ ہونے کی شرط نہیں ہے۔(دیکھئے حدیث : 2630) 1۔قتل عمد کی صورت میں قصاص اور دیت دونوں جائز ہیں۔2۔ دیت کی مقدار میں مقتول کے وارثوں کی رضامندی سے کمی ہوسکتی ہے، اضافہ نہیں ہوسکتا۔3۔ قتل کی تین سورتیں ہیں۔٭قتل عمد: اس سے مراد وہ قتل ہے جس میں حملہ آور کا مقصد قتل کرنا ہوتا ہے، چنانچہ وہ تلوار یا کسی ایسے ہتھیار سے حملہ کرتا ہے جسے سے مضروب عام طور پر بچ نہیں سکتا۔ اس قتل کی صورت میں دیت کی وہ مقدار مقرر ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔٭ قتل شبہ عمد:اس سے مراد یہ ہے کہ حملہ آور نے ایسی چیز سے حملہ کیا جس سے مضروب عام طور پر مرتانہیں، مثلاً لاٹھی کی ضرب، حملہ آور کا مقصد چوٹ لگانا یا زخمی کرنا تھا لیکن مصروب چوٹ یا زخموں کو برداشت نہ کرتے ہوئے فوت ہوگیا۔ اس کی دیت بھی قتل عمد کےبرابر ہے۔٭ قتل خطا:اس سے مراد یہ ہے کہ قاتل کا ارادہ اس کو قتل کرنے یا نقصان پہنچانے کا نہ تھا۔ اتفاقاً اس سے بلا ارادہ قتل ہوگیا، مثلا:کسی ہرن وغیرہ پر فائر کیا یا تیر چلایا مگر نشانہ چوک گیا، یا اچانک کو انسان سامنے آگیا اور فائر یا تیر اسے جالگا اور وہ مرگیا۔ اس کی دیت بھی سواونٹ ہی ہے لیکن ان کی عمر کم مقرر کی گئی ہے۔ اور حاملہ ہونے کی شرط نہیں ہے۔(دیکھئے حدیث : 2630)