كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الْقَذْفِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا نَزَلَ عُذْرِي قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ ذَلِكَ وَتَلَا الْقُرْآنَ فَلَمَّا نَزَلَ أَمَرَ بِرَجُلَيْنِ وَامْرَأَةٍ فَضُرِبُوا حَدَّهُمْ
کتاب: شرعی سزاؤں سے متعلق احکام ومسائل
باب: بدکاری کا جھوٹا الزام لگانے کی سزا
ام المومنین حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب میری براءت بازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر اس کا ذکر فرمایا اور قرآن (کی متعلقہ آیات) کی تلاوت فرمائی۔ جب منبر سے اترے تو دو مردوں اور ایک عورت کو (حد لگانے کا )حکم جاری فرمایا، چنانچہ انہیں حد لگائی گئی۔
تشریح :
(1)ام المومنین حضرت عائشہ پر منافقین کی افتراپردازی کا واقعہ غزوہ بنومصطلق سے واپسی پر پیش آیا ۔اسے غزوہ مریسع کہتے ہیں ۔مولانا صفی الرحمان مبارک پوری کی تحقیق کےمطابق یہ واقعہ شعبان 5ھجری کو پیش آیا۔(الرحیق المختوم:527حاشیہ)
(2)اس الزام تراشی کا واقعہ اس ہے کہ غزہ مریسیع سے واپسی کے سفر میں مسلمانوں نے ایک جگہ قیام فرمایا۔صبح کوحضرت عائشہ کاخالی ہوج اہل
قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ حضرت عائشہ اس کے اندر موجود ہیں حا لانکہ وہ اپنے ہار کی تلاش میں باہر گئیں ہوتھیں۔وپسی آئیں تو قافلہ رانہ ہوچکا تھا۔آپ وہیں لیٹ گئیں سوچا کہ جب انہیں میری غیرموجوگی کا علم ہوگا تو خود ہی واپس آئیں گے۔حضرت صفوان بن معطل سلمی کیی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ قافلے کے پیچھے رہیں تاکہ قافلے والوں کی گری پڑی چیز یں سنبھال لیں۔انھوں نے پردہ ما حکم ناول ہونے سے پہلے حضرت عائشہ کز دیکھا ہواتھا جب انہیں تنہا سوئے دیکھا تو اناللہ--- پڑھا اور سمجھ گئے کہ قافلہ لاعلمی میں ام المومنین کو چوڑ کر آگے چلاگیاہے۔ام المومنین کی انکھ کھلی تو فورا پردہ کر لیا۔حضرت صفوان اونٹ بٹھایا۔ام المومنین سوار ہوگئیں۔
صفوان نے نکیل پکڑی اورپیدل چلتےہوئے وہاں پہنچ گئےجہاں قافلے والے دوپہر کو ارام کےلیے ٹھرے ہوئے تھے۔منافقین نےحضرت عائشہ کوحضرت صفوان کے اونٹ پرسوار دیکھاتو نازیبا باتیںشروع کردی منافقین کے اس بے بنیادپروپیگنڈے سے متائثر ہوکر بعض مخلص مسلمانوں می زبان سےوہ بات نکل گئی پھر اللہ تعالیٰ نےسورۃ نور کے دوسرے رکوع مین حضرت عائشہ کی براءت نازل فرمائی۔ تب ان مخلص مسلمانو ں پر حدجاری کی گئی اس طرح ان کا گناہ معاف ہوگیا۔اور منافق کو بعض مصلحتوں کی بنا پرسزا نہیں دی گئی لہذا ان کی آخرت کی سزا قائم رہی۔
(3)دو مردایک عورت جن پر حد جاری کی گئی وہ (1) حضرت حسان بن ثابت حضرت مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش ہیں۔
(4)کسی بے گناہ پر بدکاری کا الزام لگانا بہت بڑا جرم ہے۔اس کی سزا اسی کوڑے ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُو ا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ)
ترجمہ: جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواه نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔
(1)ام المومنین حضرت عائشہ پر منافقین کی افتراپردازی کا واقعہ غزوہ بنومصطلق سے واپسی پر پیش آیا ۔اسے غزوہ مریسع کہتے ہیں ۔مولانا صفی الرحمان مبارک پوری کی تحقیق کےمطابق یہ واقعہ شعبان 5ھجری کو پیش آیا۔(الرحیق المختوم:527حاشیہ)
(2)اس الزام تراشی کا واقعہ اس ہے کہ غزہ مریسیع سے واپسی کے سفر میں مسلمانوں نے ایک جگہ قیام فرمایا۔صبح کوحضرت عائشہ کاخالی ہوج اہل
قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ حضرت عائشہ اس کے اندر موجود ہیں حا لانکہ وہ اپنے ہار کی تلاش میں باہر گئیں ہوتھیں۔وپسی آئیں تو قافلہ رانہ ہوچکا تھا۔آپ وہیں لیٹ گئیں سوچا کہ جب انہیں میری غیرموجوگی کا علم ہوگا تو خود ہی واپس آئیں گے۔حضرت صفوان بن معطل سلمی کیی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ قافلے کے پیچھے رہیں تاکہ قافلے والوں کی گری پڑی چیز یں سنبھال لیں۔انھوں نے پردہ ما حکم ناول ہونے سے پہلے حضرت عائشہ کز دیکھا ہواتھا جب انہیں تنہا سوئے دیکھا تو اناللہ--- پڑھا اور سمجھ گئے کہ قافلہ لاعلمی میں ام المومنین کو چوڑ کر آگے چلاگیاہے۔ام المومنین کی انکھ کھلی تو فورا پردہ کر لیا۔حضرت صفوان اونٹ بٹھایا۔ام المومنین سوار ہوگئیں۔
صفوان نے نکیل پکڑی اورپیدل چلتےہوئے وہاں پہنچ گئےجہاں قافلے والے دوپہر کو ارام کےلیے ٹھرے ہوئے تھے۔منافقین نےحضرت عائشہ کوحضرت صفوان کے اونٹ پرسوار دیکھاتو نازیبا باتیںشروع کردی منافقین کے اس بے بنیادپروپیگنڈے سے متائثر ہوکر بعض مخلص مسلمانوں می زبان سےوہ بات نکل گئی پھر اللہ تعالیٰ نےسورۃ نور کے دوسرے رکوع مین حضرت عائشہ کی براءت نازل فرمائی۔ تب ان مخلص مسلمانو ں پر حدجاری کی گئی اس طرح ان کا گناہ معاف ہوگیا۔اور منافق کو بعض مصلحتوں کی بنا پرسزا نہیں دی گئی لہذا ان کی آخرت کی سزا قائم رہی۔
(3)دو مردایک عورت جن پر حد جاری کی گئی وہ (1) حضرت حسان بن ثابت حضرت مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش ہیں۔
(4)کسی بے گناہ پر بدکاری کا الزام لگانا بہت بڑا جرم ہے۔اس کی سزا اسی کوڑے ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُو ا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ)
ترجمہ: جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواه نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔