Book - حدیث 253

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ الِانْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ حسن حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو كَرِبٍ الْأَزْدِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيَصْرِفَ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ، فَهُوَ فِي النَّارِ»

ترجمہ Book - حدیث 253

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: علم سے فائدہ اٹھانا اور اس پر عمل کرنا سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص اس لئے علم حاصل کرتا ہے کہ بے علم( عوام) سے بحث کرے یا علماء کے مقابلے میں فخر کا اظہار کرے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے، وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘
تشریح : (1) جو شخص بغیر اخلاص کے علم حاصل کرتا ہے اس کا مقصد عام طور پر یہی باتیں ہوتی ہیں جو حدیث میں مذکورہ ہوئیں۔ ایسا شخص نیت کی خرابی کے جرم میں جہنم کی سزا کا مستحق ہو گا۔ (2) بے عمل علماء عام طور پر نئے نئے مسئلے نکالتے رہتے ہیں تاکہ عوام انہیں عالم سمجھیں۔ خصوصا ایسے اجتہادی مسائل جن میں سلف کے درمیان اختلاف رہا ہے یا ایک عمل دو طریقوں سے جائز ہے اور ان میں سے ایک طریقہ رائج ہو گیا ہے، ان میں نئے سرے سے اختلاف پیدا کرنا مستحسن نہیں، البتہ اگر کوئی مسنون عمل معاشرہ میں متروک ہو گیا ہے یا کوئی بدعت رائج ہو گئی ہے تو اس سنت کا احیاء اور بدعت کی تردید ضروری ہے۔ (3) اگر کسی مقام پر اختلافی مسئلہ بیان کرنے کی ضرورت ہو تو اسے اس انداز سے بیان کرنا چاہیے جس سے دوسرا موقف رکھنے والے علماء کی تحقیر اور توہیں نہ ہو۔ اور اگر کسی عالم سے بحث و مباحثہ کی نوبت آ جائے تو مکاطب کا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ادب کے دائرے میں بات چیت ہونی چاہیے، گالی گلوچ علماء کی شان کے لائق نہیں بلکہ ایسی حرکتیں عدم خلوص کی علامت ہیں۔ (4) بعض لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ عوام میں ان کا نام زیادہ مشہور ہو اور ان کے نام کے ساتھ لمبے چوڑے القاب لکھے اور بولے جائیں یا کسی مذہبی اور سیاسی تنظیم میں ان کو اونچا عہدہ اور منصب ملے، اس مقصد کے لیے وہ اپنی تشہیر اور دوسرے علماء کی تحقیر کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ یہ سب کام خلوص سے محرومی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ علماء کو چاہیے کہ اپنی ذات کا کڑا احتساب کرتے رہیں تاکہ شیطان کے داؤ سے محفوظ رہ سکیں۔ اس سلسلہ میں "تلبیس ابلیس" (مصنفه علامہ ابن الجوزی رحمة اللہ علیه) امام ابن القیم کی "الداءوالدواء" اور اس قسم کی دوسری کتابوں کا مطالعہ مفید ہے۔ (5) بعض محققین نے شواہد کی بنا پر اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (المشکاة للالبانی، حدیث:225،226) علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی تحقیق میں اس کے شواہد کا تذکرہ کیا ہے لیکن ان کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ بہرحال روایت شواہد کی وجہ سے قابل حجت ہے۔ واللہ اعلم. (1) جو شخص بغیر اخلاص کے علم حاصل کرتا ہے اس کا مقصد عام طور پر یہی باتیں ہوتی ہیں جو حدیث میں مذکورہ ہوئیں۔ ایسا شخص نیت کی خرابی کے جرم میں جہنم کی سزا کا مستحق ہو گا۔ (2) بے عمل علماء عام طور پر نئے نئے مسئلے نکالتے رہتے ہیں تاکہ عوام انہیں عالم سمجھیں۔ خصوصا ایسے اجتہادی مسائل جن میں سلف کے درمیان اختلاف رہا ہے یا ایک عمل دو طریقوں سے جائز ہے اور ان میں سے ایک طریقہ رائج ہو گیا ہے، ان میں نئے سرے سے اختلاف پیدا کرنا مستحسن نہیں، البتہ اگر کوئی مسنون عمل معاشرہ میں متروک ہو گیا ہے یا کوئی بدعت رائج ہو گئی ہے تو اس سنت کا احیاء اور بدعت کی تردید ضروری ہے۔ (3) اگر کسی مقام پر اختلافی مسئلہ بیان کرنے کی ضرورت ہو تو اسے اس انداز سے بیان کرنا چاہیے جس سے دوسرا موقف رکھنے والے علماء کی تحقیر اور توہیں نہ ہو۔ اور اگر کسی عالم سے بحث و مباحثہ کی نوبت آ جائے تو مکاطب کا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ادب کے دائرے میں بات چیت ہونی چاہیے، گالی گلوچ علماء کی شان کے لائق نہیں بلکہ ایسی حرکتیں عدم خلوص کی علامت ہیں۔ (4) بعض لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ عوام میں ان کا نام زیادہ مشہور ہو اور ان کے نام کے ساتھ لمبے چوڑے القاب لکھے اور بولے جائیں یا کسی مذہبی اور سیاسی تنظیم میں ان کو اونچا عہدہ اور منصب ملے، اس مقصد کے لیے وہ اپنی تشہیر اور دوسرے علماء کی تحقیر کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ یہ سب کام خلوص سے محرومی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ علماء کو چاہیے کہ اپنی ذات کا کڑا احتساب کرتے رہیں تاکہ شیطان کے داؤ سے محفوظ رہ سکیں۔ اس سلسلہ میں "تلبیس ابلیس" (مصنفه علامہ ابن الجوزی رحمة اللہ علیه) امام ابن القیم کی "الداءوالدواء" اور اس قسم کی دوسری کتابوں کا مطالعہ مفید ہے۔ (5) بعض محققین نے شواہد کی بنا پر اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (المشکاة للالبانی، حدیث:225،226) علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی تحقیق میں اس کے شواہد کا تذکرہ کیا ہے لیکن ان کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ بہرحال روایت شواہد کی وجہ سے قابل حجت ہے۔ واللہ اعلم.