كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ الِانْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ»
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: علم سے فائدہ اٹھانا اور اس پر عمل کرنا
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی ایک دعا یہ بھی تھی:(اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لاَ يَنْفَعُ وَمِنْ دُعَاءٍ لاَ يُسْمَعُ وَمَنْ قَلْبٍ لاَ يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ)’’ اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس علم سے جو فائدہ نہ دے، اس دعا سے جو قبول نہ ہو، اس دل سے جو( تیرے سامنے) عاجزی نہ کرے اور اس نفس سے جو سیر نہ ہو۔‘‘
تشریح :
(1) دعا بھی ا یک عبادت ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف موقعوں پر مختلف دعائیں کرتے تھے۔ اس میں امت کے لیے تعلیم بھی ہے کہ اس طرح دعا کیا کرو۔ (2) قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بہت سی دعائیں مذکور ہیں، انسان موقع محل کی مناسبت سے ان میں سے کوئی بھی دعا منتخب کر سکتا ہے۔ ویسے تو اپنے الفاظ میں اور اپنی زبان میں بھی دعا کرنا درست ہے، لیکن زبان رسالت سے جو دعائیں ادا ہوئیں ہیں ان کی سی برکت دوسری دعاؤں میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ان الفاظ میں دعا مانگنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع کا جو شرف حاصل ہوتا ہے، وہ دوسرے الفاظ سے نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ الفاظ بظاہر کتنے ہی خوبصورت اور عمدہ ہوں۔ (3) علم نافع، جس کی دعا اس حدیث میں کی گئی ہے، اس سے مراد وہ علم ہے جس پر عمل بھی ہو کیونکہ عمل صالح ہی سے دنیا و آخرت میں فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ (4) وہ دعا جو سنی نہ جائے، یونی قبول نہ ہو۔ اس سے پناہ کا مطلب یہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میری تمام دعائیں قبول فرمائے اور مجھے پورے آداب کے ساتھ ایسی دعا کرنے کی توفیق بخشے جو اللہ کے ہاں شرف قبولیت حاصل کر سکے۔ (4) "سیر نہ ہونے والے نفس" سے مراد نیا کی دولت ، شہرت، منصب وغیرہ کا حریص نفس ہے۔ زیادہ سے زیادہ علم نافع کی طلب اور موجود علم سے سیر نہ ہونا ایک اچھی خصلت ہے، اس لیے حکم دیا گیا ہے: (وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا) (طہ:114) "(اے نبی!) آپ کہیے: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔" (5) اس میں علم نافع کی فضیلت ہے کیونکہ اس کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعا کی ہے۔
(1) دعا بھی ا یک عبادت ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف موقعوں پر مختلف دعائیں کرتے تھے۔ اس میں امت کے لیے تعلیم بھی ہے کہ اس طرح دعا کیا کرو۔ (2) قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بہت سی دعائیں مذکور ہیں، انسان موقع محل کی مناسبت سے ان میں سے کوئی بھی دعا منتخب کر سکتا ہے۔ ویسے تو اپنے الفاظ میں اور اپنی زبان میں بھی دعا کرنا درست ہے، لیکن زبان رسالت سے جو دعائیں ادا ہوئیں ہیں ان کی سی برکت دوسری دعاؤں میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ان الفاظ میں دعا مانگنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع کا جو شرف حاصل ہوتا ہے، وہ دوسرے الفاظ سے نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ الفاظ بظاہر کتنے ہی خوبصورت اور عمدہ ہوں۔ (3) علم نافع، جس کی دعا اس حدیث میں کی گئی ہے، اس سے مراد وہ علم ہے جس پر عمل بھی ہو کیونکہ عمل صالح ہی سے دنیا و آخرت میں فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ (4) وہ دعا جو سنی نہ جائے، یونی قبول نہ ہو۔ اس سے پناہ کا مطلب یہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میری تمام دعائیں قبول فرمائے اور مجھے پورے آداب کے ساتھ ایسی دعا کرنے کی توفیق بخشے جو اللہ کے ہاں شرف قبولیت حاصل کر سکے۔ (4) "سیر نہ ہونے والے نفس" سے مراد نیا کی دولت ، شہرت، منصب وغیرہ کا حریص نفس ہے۔ زیادہ سے زیادہ علم نافع کی طلب اور موجود علم سے سیر نہ ہونا ایک اچھی خصلت ہے، اس لیے حکم دیا گیا ہے: (وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا) (طہ:114) "(اے نبی!) آپ کہیے: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔" (5) اس میں علم نافع کی فضیلت ہے کیونکہ اس کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعا کی ہے۔