Book - حدیث 248

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ الْوَصَاةِ بِطَلَبَةِ الْعِلْمِ موضوع حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ هِلَالٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى الْحَسَنِ نَعُودُهُ حَتَّى مَلَأْنَا الْبَيْتَ، فَقَبَضَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ نَعُودُهُ حَتَّى مَلَأْنَا الْبَيْتَ، فَقَبَضَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَلَأْنَا الْبَيْتَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ لِجَنْبِهِ، فَلَمَّا رَآنَا قَبَضَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّهُ سَيَأْتِيكُمْ أَقْوَامٌ مِنْ بَعْدِي يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ، فَرَحِّبُوا بِهِمْ، وَحَيُّوهُمْ، وَعَلِّمُوهُمْ» ، قَالَ: «فَأَدْرَكْنَا وَاللَّهِ أَقْوَامًا مَا رَحَّبُوا بِنَا، وَلَا حَيَّوْنَا، وَلَا عَلَّمُونَا، إِلَّا بَعْدَ أَنْ كُنَّا نَذْهَبُ إِلَيْهِمْ فَيَجْفُونَا»

ترجمہ Book - حدیث 248

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: طالبان علم کے حق میں وصیت اسماعیل (بن مسلم) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم حسن( بصری) ؓ کی عیادت کے لئے ان کے ہاں گئے( ہم لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ) کمرہ ہم لوگوں سے بھر گیا، حسن( بصری) ؓ نے اپنے پاؤں سمیٹ لئے اور فرمایا:( ایک بار) ہم ابو ہریرہ ؓ کی بیمار پرسی کے لئے ان کے ہاں گئے حتی کہ کمرہ بھر گیا تو انہوں نے بھی پاؤں سمیٹ لیے تھے اور فرمایا تھا: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے حتی کہ کمرہ بھر گیا، آپ ﷺ پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے ۔ ہمیں دیکھ کر قدم مبارک سمیٹ لیے۔ پھر فرمایا’’میرے بعد تمہارے پاس بہت سے لوگ علم کی طلب میں آئیں گے، تم انہیں خوش آمدید کہنا ، انہیں دعائیں دینا اور انہیں تعلیم دینا۔‘‘ حسن بصری ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہمیں تو ایسے لوگ ملے جنہوں نے ہمیں نہ مرحبا کہا، نہ دعائیں دیں اور تعلیم بھی اس طرح دی کہ ہم ان کے پاس جاتے تھے اور وہ ہم سے بے رخی کا اظہار کرتے تھے۔
تشریح : حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں ان کے اساتذہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور کبار تابعین ہیں۔ ان حضرات کے متعلق یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نا مناسب رویہ اختیار کرتے تھے۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں ان کے اساتذہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور کبار تابعین ہیں۔ ان حضرات کے متعلق یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نا مناسب رویہ اختیار کرتے تھے۔