كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ الْوَصَاةِ بِطَلَبَةِ الْعِلْمِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ رَاشِدٍ الْمِصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدَةَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَيَأْتِيكُمْ أَقْوَامٌ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَقُولُوا لَهُمْ: مَرْحَبًا مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاقْنُوهُمْ قُلْتُ لِلْحَكَمِ، مَا اقْنُوهُمْ، قَالَ: عَلِّمُوهُمْ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: طالبان علم کے حق میں وصیت
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تمہارے پاس لوگ علم کی تلاش میں آئیں گے۔ جب تم انہیں دیکھو تو کہو: مرحبا، خوش آمدید جن کے حق میں اللہ کے رسول ﷺ نے وصیت کی۔ اور انہیں وہ چیز دو جو ذخیرہ کیے جانے کے قابل ہے۔‘‘امام ابن ماجہ ؓ کے استاذ محمد بن حارث فرماتے ہیں: میں نے اپنے استاد حکم بن عبدہ پوچھا : قابل ذخیر چیز دینے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ انہیں علم سکھاؤ۔
تشریح :
(1) یہ روایت بعض محققین کے نزدیک حسن ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (الصحیحۃ، حدیث:280) (2) اس سے معلوم ہوا کہ حدٰث نبوی وہ علم ہے جو انتہائی توجہ اور شوق سے حاصل کیے جانے کے لائق ہے۔ صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم حاصل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش خبری دی کہ ان سے بھی یہ علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز سے لوگ آئیں گے۔ چنانچہ ہر دور میں مسلمان اس مبارک علم کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ (3) مبارک باد کے لائق ہیں وہ طالبان علوم نبوی جنہیں خوش آمدید کہنے کی وصیت خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے، دوسرے علوم و فنون کو یہ شرف حاصل نہیں اگرچہ ان کا سیکھنا بھی مسلمان معاشرے کی ضرورت ہے۔ (4) علمائے دین کو چاہیے کہ طلبہ سے شفقت و محبت کا اظہار کریں اور انہیں دینی علوم کے شرف اور مقام و مرتبہ سے آگاہ کریں تاکہ طلبہ توجہ اور محنت سے یہ علم حاصل کریں اور اس سے راستے میں آنے والی مشکلات کو صبر و حوصلہ سے برداشت کریں۔ (5) اقنوهم (انہیں قابل ذخیرہ چیز دو) کا لفظ قنیۃ سے ماخوذ ہے اور قنیۃ اس چیز کو کہتے ہیں جسے جمع کیا جائے اور سنبھال کر رکھا جائے۔ علم بھی ایسی چیز ہے جسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور پھر اسے یاد رکھا جانا چاہیے۔ لکھ کر، دہرائی اور مذاکرہ کے ذریعے سے اسے ذہن نشین کرنا اور سمجھنا چاہیے تاکہ وہ محفوظ رہے اور فراموش ہو کر ضائع نہ ہو جائے۔
(1) یہ روایت بعض محققین کے نزدیک حسن ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (الصحیحۃ، حدیث:280) (2) اس سے معلوم ہوا کہ حدٰث نبوی وہ علم ہے جو انتہائی توجہ اور شوق سے حاصل کیے جانے کے لائق ہے۔ صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم حاصل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش خبری دی کہ ان سے بھی یہ علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز سے لوگ آئیں گے۔ چنانچہ ہر دور میں مسلمان اس مبارک علم کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ (3) مبارک باد کے لائق ہیں وہ طالبان علوم نبوی جنہیں خوش آمدید کہنے کی وصیت خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے، دوسرے علوم و فنون کو یہ شرف حاصل نہیں اگرچہ ان کا سیکھنا بھی مسلمان معاشرے کی ضرورت ہے۔ (4) علمائے دین کو چاہیے کہ طلبہ سے شفقت و محبت کا اظہار کریں اور انہیں دینی علوم کے شرف اور مقام و مرتبہ سے آگاہ کریں تاکہ طلبہ توجہ اور محنت سے یہ علم حاصل کریں اور اس سے راستے میں آنے والی مشکلات کو صبر و حوصلہ سے برداشت کریں۔ (5) اقنوهم (انہیں قابل ذخیرہ چیز دو) کا لفظ قنیۃ سے ماخوذ ہے اور قنیۃ اس چیز کو کہتے ہیں جسے جمع کیا جائے اور سنبھال کر رکھا جائے۔ علم بھی ایسی چیز ہے جسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور پھر اسے یاد رکھا جانا چاہیے۔ لکھ کر، دہرائی اور مذاکرہ کے ذریعے سے اسے ذہن نشین کرنا اور سمجھنا چاہیے تاکہ وہ محفوظ رہے اور فراموش ہو کر ضائع نہ ہو جائے۔