Book - حدیث 2453

كِتَابُ الرُّهُونِ بَابُ كِرَاءِ الْأَرْضِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَأَبُو أُسَامَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَوْ قَالَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُكْرِي أَرْضًا لَهُ مَزَارِعًا فَأَتَاهُ إِنْسَانٌ فَأَخْبَرَهُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ وَذَهَبْتُ مَعَهُ حَتَّى أَتَاهُ بِالْبَلَاطِ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ فَتَرَكَ عَبْدُ اللَّهِ كِرَاءَهَا

ترجمہ Book - حدیث 2453

کتاب: رہن ( گروی رکھی ہوئی چیز) سے متعلق احکام ومسائل باب: زمین کرائے ( ٹھیکے ) پر دینا حضرت نافع ؓ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپمی زمین کے کھیت کرائے (ٹھیکے) پر دیا کرتے تھے۔ ان کے پاس ایک شخص آیا اور حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ (حضرت رافع ؓ کے پاس) گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ گیا۔ انہوں نے مقام بلاط پر ان سے ملاقات کی اور یہ مسئلہ دریافت کیا تو حضرت رافع بن خدیج ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ ؓ نے زمین کرائے پر دینی ترک کر دی۔
تشریح : 1۔ کرائے پردینے کامطلب یہ ہے کہ کاشتکار سےایک مقررہ رقم پرمعاہدہ ہوجائے ۔ وہ کاشت کرے اورپیداوار حاصل ہونے پرمقررہ رقم زمین کے مالک کودےدے باقی اس کی اپنی آمدنی ہے ۔ 2۔ کرایہ نہ لینا اورکاشتکارکوبلامعاوضہ کاشت کرنے دینا افضل ہے رسول اللہ کی ممانعت افضل صورت کی ترغیب کےلیے ہے ویسے زمین کاکرایہ لینا جائزہے۔(دیکھیے حدیث:2456)زمانہ جاہلیت میں مزارعت کی بعض ایسی صورتیں رائج تھیں جواسلام میں منوع ہیں ۔ ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ (دیکھیےحدیث :2458۔2460) 3۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مشکوک معاملات میں احتیاط سےکام لیتےتھے اورایسے کام سےپرہیز کرتےتھے جس میں کسی قسم کاشبہ ہو۔ نبی اکر م نےفرمایا جوشخص شبہ والی چیزوں سےبچ گیا اس نےاپنے دین اوراپنی عزت کوبچالیا۔(صحیح البخاری الایمان باب فضل من استبرالدینہ حدیث:52 وصحیح مسلم المساقاۃ باب اخذ الحلال وترک الشبھات حدیث :1599) 1۔ کرائے پردینے کامطلب یہ ہے کہ کاشتکار سےایک مقررہ رقم پرمعاہدہ ہوجائے ۔ وہ کاشت کرے اورپیداوار حاصل ہونے پرمقررہ رقم زمین کے مالک کودےدے باقی اس کی اپنی آمدنی ہے ۔ 2۔ کرایہ نہ لینا اورکاشتکارکوبلامعاوضہ کاشت کرنے دینا افضل ہے رسول اللہ کی ممانعت افضل صورت کی ترغیب کےلیے ہے ویسے زمین کاکرایہ لینا جائزہے۔(دیکھیے حدیث:2456)زمانہ جاہلیت میں مزارعت کی بعض ایسی صورتیں رائج تھیں جواسلام میں منوع ہیں ۔ ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ (دیکھیےحدیث :2458۔2460) 3۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مشکوک معاملات میں احتیاط سےکام لیتےتھے اورایسے کام سےپرہیز کرتےتھے جس میں کسی قسم کاشبہ ہو۔ نبی اکر م نےفرمایا جوشخص شبہ والی چیزوں سےبچ گیا اس نےاپنے دین اوراپنی عزت کوبچالیا۔(صحیح البخاری الایمان باب فضل من استبرالدینہ حدیث:52 وصحیح مسلم المساقاۃ باب اخذ الحلال وترک الشبھات حدیث :1599)