Book - حدیث 2433

كِتَابُ الصَّدَقَاتِ بَابُ أَدَاءِ الدَّيْنِ عَنِ الْمَيِّتِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ أَبُو جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ أَنَّ أَخَاهُ مَاتَ وَتَرَكَ ثَلَاثَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَتَرَكَ عِيَالًا فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَهَا عَلَى عِيَالِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخَاكَ مُحْتَبَسٌ بِدَيْنِهِ فَاقْضِ عَنْهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَدَّيْتُ عَنْهُ إِلَّا دِينَارَيْنِ ادَّعَتْهُمَا امْرَأَةٌ وَلَيْسَ لَهَا بَيِّنَةٌ قَالَ فَأَعْطِهَا فَإِنَّهَا مُحِقَّةٌ

ترجمہ Book - حدیث 2433

کتاب: صدقہ وخیرات سے متعلق احکام ومسائل باب: فوت شدہ کی طرف سے قرض کی ادائیگی حضرت سعد بن اطول جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ان کا بھائی فوت ہو گیا، اس نے تین سو درہم (ترکہ) چھوڑا اور بال بچے بھی چھوڑے۔ میں نے چاہا کہ یہ مال اس کے بیوی بچوں پر خرچ کروں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تمہارا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے قید ہے، اس لیے اس کا قرض ادا کرو۔ تو حضرت سعد ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کا (سارا) قرض ادا کر دیا ہے، سوائے دو دینار کے۔ ایک عورت ان کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت (گواہی وغیرہ) نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے دے دو، وہ سچی ہے۔
تشریح : 1۔ بیوی بچوں پرخرچ کرنے کامطلب یہ ہے کہ مال ان کے حوالے کردیا جائے یا اس سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں کیونکہ مرنے والے کے ترکے میں سے بیوی کا حقہ مقرر رہے جوباقی بچے وہ بچوں کاہے۔ 2۔ وراثت میں بعض افراد کاحصہ مقررہے۔ انھیں حصہ دینے کےبعد باقی مال قریبی رشتےداروں کوملتاہے۔انھیں عصہ کہتے ہیں ۔ عصبہ افراد میں بیٹا بھائی پرمقدم ہے۔ 3۔ ترکے کی تقسیم قرض کی ادائیگی کےبعدہوتی ہے ۔ 4۔ عورت کا یہ دعوی تھا کہ مرنے والے کےذمے اس کے دودینارتھے ۔ حضرت سعد بن اطول رضی اللہ عنہ اپنے اطمینان کےلیے گواہی طلب کرتےتھے عورت کے پاس گواہی نہ تھی اس قسم کی مشکلات سےبچنے کےلیےحکم دیا گیاہے کہ قرض کالین دین تحریر میں لانا چاہیے اورگواہ بھی مقرر کیے جائیں۔ 5۔ رسول اللہ ﷺ کووحی کےذریعے سےمعلوم ہوگیاکہ عورت کادعوی درست ہے اس لیے نبی ﷺاسے دو دینار دلوا دیے۔ 6۔ قرض ادا نہ ہونے کی صورت میں فوت ہونے والے کواللہ کے ہاں قید کیا جاتاہے لیکن یہ قید صرف جنت میں داخلے سےرکاوٹ ہے اس کی وجہ سے وہ جہنم کامستحق نہیں بن جاتا۔ واللہ اعلم . 1۔ بیوی بچوں پرخرچ کرنے کامطلب یہ ہے کہ مال ان کے حوالے کردیا جائے یا اس سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں کیونکہ مرنے والے کے ترکے میں سے بیوی کا حقہ مقرر رہے جوباقی بچے وہ بچوں کاہے۔ 2۔ وراثت میں بعض افراد کاحصہ مقررہے۔ انھیں حصہ دینے کےبعد باقی مال قریبی رشتےداروں کوملتاہے۔انھیں عصہ کہتے ہیں ۔ عصبہ افراد میں بیٹا بھائی پرمقدم ہے۔ 3۔ ترکے کی تقسیم قرض کی ادائیگی کےبعدہوتی ہے ۔ 4۔ عورت کا یہ دعوی تھا کہ مرنے والے کےذمے اس کے دودینارتھے ۔ حضرت سعد بن اطول رضی اللہ عنہ اپنے اطمینان کےلیے گواہی طلب کرتےتھے عورت کے پاس گواہی نہ تھی اس قسم کی مشکلات سےبچنے کےلیےحکم دیا گیاہے کہ قرض کالین دین تحریر میں لانا چاہیے اورگواہ بھی مقرر کیے جائیں۔ 5۔ رسول اللہ ﷺ کووحی کےذریعے سےمعلوم ہوگیاکہ عورت کادعوی درست ہے اس لیے نبی ﷺاسے دو دینار دلوا دیے۔ 6۔ قرض ادا نہ ہونے کی صورت میں فوت ہونے والے کواللہ کے ہاں قید کیا جاتاہے لیکن یہ قید صرف جنت میں داخلے سےرکاوٹ ہے اس کی وجہ سے وہ جہنم کامستحق نہیں بن جاتا۔ واللہ اعلم .