Book - حدیث 2366

کِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ مَنْ لَا تَجُوزُ شَهَادَتُهُ حسن حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَا حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ وَلَا خَائِنَةٍ وَلَا مَحْدُودٍ فِي الْإِسْلَامِ وَلَا ذِي غِمْرٍ عَلَى أَخِيهِ

ترجمہ Book - حدیث 2366

کتاب: گواہی سے متعلق احکام ومسائل باب: کس کی گواہی قبول نہیں ؟ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب بن محمد) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی قبول نہیں، اور نہ اس کی جسے اسلام (لانے کے بعد کسی جرم کی سزا) میں حد لگائی گئی ہو، اور نہ اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کی گواہی قبول ہے۔
تشریح : 1۔ مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نےسندا ضعیف قرار دےکرکہا ہے کہ اس حدیث کی اصل صحیح ہے نیزسنن ابوداود میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سےمروی روایت کوحسن قرار دیا ہے ۔ (دیکھیے:سنن ابوداود (اردو) طبع دارالسلام‘حدیث :3600‘3601)جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ روایت ہمارے فاضل محقق کےنزدیک قابل عمل اروقابل حجت ہے‘علاوہ ازیں دیگرمحقیقین نےبھی اسےحسن قراردیاہے‘لہذا مذکورہ روایت سنداضعیف ہونے کے باوجود دیگرشواہد کی بنا پرقابل عمل اورقابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کےلیے دیکھیے:(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد :11‘299‘300‘والارواء للالبانی رقم 2669‘وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتوربشارعواد‘حدیث :2366) 2۔ امانت میں خیانت کرنےوالا قابل اعتمادنہیں ہوتا‘لہذا عدالت میں اس کی گواہی قبول نہیں ۔ 3۔ ’’حد‘‘بعض خاض جرائم کی سزاوں کوکہا جاتاہے جو اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہین ۔ عدالت کوان میں کمی بیشی کاحق نہیں ۔ ان کےعلاوہ دیگر سزاوں کو’’تعزیر‘‘کہتےہیں جن میں حالات کےمطابق تبدیلی کی جاسکتی ہے ۔ 4۔ جب یہ ثابت ہوجائے کہ گواہ نے جس کے خلاف گواہی دی ہے‘اس سے اس کی پہلے سےناراضی ہے تویہ بات گواہی کومشکوک بنادیتی ہے ممکن ہےکہ وہ پرانی دشمنی کی وجہ سےاس کے خلاف گواہی دےکراپنا بدلہ لینا چاہتاہو۔ 5۔ بھائی سےمراد دینی بھائی یعنی مسلمان ہے۔ اس میں حقیقی بھائی بھی شامل ہے کیونکہ مسلمان ہونے کی صورت مین وہ بھی دینی بھائی ہے ۔ 1۔ مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نےسندا ضعیف قرار دےکرکہا ہے کہ اس حدیث کی اصل صحیح ہے نیزسنن ابوداود میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سےمروی روایت کوحسن قرار دیا ہے ۔ (دیکھیے:سنن ابوداود (اردو) طبع دارالسلام‘حدیث :3600‘3601)جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ روایت ہمارے فاضل محقق کےنزدیک قابل عمل اروقابل حجت ہے‘علاوہ ازیں دیگرمحقیقین نےبھی اسےحسن قراردیاہے‘لہذا مذکورہ روایت سنداضعیف ہونے کے باوجود دیگرشواہد کی بنا پرقابل عمل اورقابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کےلیے دیکھیے:(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد :11‘299‘300‘والارواء للالبانی رقم 2669‘وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتوربشارعواد‘حدیث :2366) 2۔ امانت میں خیانت کرنےوالا قابل اعتمادنہیں ہوتا‘لہذا عدالت میں اس کی گواہی قبول نہیں ۔ 3۔ ’’حد‘‘بعض خاض جرائم کی سزاوں کوکہا جاتاہے جو اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہین ۔ عدالت کوان میں کمی بیشی کاحق نہیں ۔ ان کےعلاوہ دیگر سزاوں کو’’تعزیر‘‘کہتےہیں جن میں حالات کےمطابق تبدیلی کی جاسکتی ہے ۔ 4۔ جب یہ ثابت ہوجائے کہ گواہ نے جس کے خلاف گواہی دی ہے‘اس سے اس کی پہلے سےناراضی ہے تویہ بات گواہی کومشکوک بنادیتی ہے ممکن ہےکہ وہ پرانی دشمنی کی وجہ سےاس کے خلاف گواہی دےکراپنا بدلہ لینا چاہتاہو۔ 5۔ بھائی سےمراد دینی بھائی یعنی مسلمان ہے۔ اس میں حقیقی بھائی بھی شامل ہے کیونکہ مسلمان ہونے کی صورت مین وہ بھی دینی بھائی ہے ۔