Book - حدیث 2365

کِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ الْإِشْهَادِ عَلَى الدُّيُونِ حسن حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعِجْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى حَتَّى بَلَغَ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَقَالَ هَذِهِ نَسَخَتْ مَا قَبْلَهَا

ترجمہ Book - حدیث 2365

کتاب: گواہی سے متعلق احکام ومسائل باب: قرض پر گواہ بنانا حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ آیت پڑھی: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى) اے مومنو!جب تم ایک مقررہ مدت تک قرض لو یا دو۔ حتی کہ آپ اس آیت پر پہنچے: (فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا) اگر تم آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو (تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کرے۔ ) تو فرمایا: اس نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا۔
تشریح : 1۔ یہ موقوف حدیث ہے‘یعنی صحابی کاقول ہے‘نبئ اکرم ﷺ کاارشاد نہیں ۔صحابی کےقول کےمقابلےمیں اگرمرفوع حدیث نہ ہوتوموقوف حدیث سےدلیل لی جاسکتی ہے ۔ 3’’منسوخ‘‘سےاصطلاحی منسوخ مرادنہیں ۔ مطلب یہ ہےکہ پہلی آیت میں ہر قرض کوتحریر مین لانے کا حکم ہے لیکن جب گروی رکھ کر قرض لیاجائے تویہ پہلے حکم شامل نہیں اسی طرح جب باہمی اعتماد کی بنا پر امانت رکھی جائی تویہ بھی پہلے حکم میں شامل نہیں اوراسے تحریر کرنا ضروری نہیں ۔ 4۔یہ ایک استثنائی صورت ہے ۔ اعتماد کی صورت میں جس طرح تحریر ضروری نہیں اسی طرح گروی رکھنا بھی ضروری نہیں تاہم پھر بھی تحریر کرلینا بہتر ہے ۔ 1۔ یہ موقوف حدیث ہے‘یعنی صحابی کاقول ہے‘نبئ اکرم ﷺ کاارشاد نہیں ۔صحابی کےقول کےمقابلےمیں اگرمرفوع حدیث نہ ہوتوموقوف حدیث سےدلیل لی جاسکتی ہے ۔ 3’’منسوخ‘‘سےاصطلاحی منسوخ مرادنہیں ۔ مطلب یہ ہےکہ پہلی آیت میں ہر قرض کوتحریر مین لانے کا حکم ہے لیکن جب گروی رکھ کر قرض لیاجائے تویہ پہلے حکم شامل نہیں اسی طرح جب باہمی اعتماد کی بنا پر امانت رکھی جائی تویہ بھی پہلے حکم میں شامل نہیں اوراسے تحریر کرنا ضروری نہیں ۔ 4۔یہ ایک استثنائی صورت ہے ۔ اعتماد کی صورت میں جس طرح تحریر ضروری نہیں اسی طرح گروی رکھنا بھی ضروری نہیں تاہم پھر بھی تحریر کرلینا بہتر ہے ۔