کِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ كَرَاهِيَةِ الشَّهَادَةِ لِمَنْ لَمْ يَسْتَشْهِدْ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بنُ الْجَرَّاحِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا مِثْلَ مُقَامِي فِيكُمْ فَقَالَ احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَمَا يُسْتَشْهَدُ وَيَحْلِفَ وَمَا يُسْتَحْلَفُ
کتاب: گواہی سے متعلق احکام ومسائل
باب: جس سے گواہی طلب نہ کی جائے اس کا گواہی دینا مکروہ ہے
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت عمر ؓ نے مقام جابیہ میں ہم سے خطاب فرمایا: آپ نے اس میں فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے اندر اسی طرح کھڑے ہوئے تھے جس طرح میں تمہارے اندر کھڑا ہوں، پھر فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں میرا خیال رکھنا، پھر ان لوگوں کے بارے میں جو ان (صحابہ) سے متصل ہوں گے (یعنی رابعین)، پھر ان لوگوں کے بارے میں جو ان (تابعین) سے متصل ہوں گے (یعنی تبع تابعین)، اس کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا حتی کہ آدمی گواہی دے گا، حالانکہ اس سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ اور وہ قسم کھائے گا، حالانکہ اس سے قسم نہیں کی جائے گی۔
تشریح :
1۔ میرا خیال رکھنا اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے تعلق کالحاظ رکھتےہوئے ان سے محبت اوران کا اخترام قائم رکھنا ۔
2۔تابعین اورتبع تابعین بھی قابل احترام ہیں لہذا ان سےمحبت اوران کا احترام ضروری ہے ۔
3۔ صحابہ تابعین اورتبع تابعین کےدورمیں خیر غالب اورشرمغلوب تھا۔ عام لوگوں میں اخلاق وکردار کی وہ خرابیاں نہیں تھیں جوبعد میں ظاہر ہوئیں ۔ ان زمانوں میں جو فکری غلطیاں پیداہوئیں ان میں بھی وہ شدت نہیں تھی جو بعد کے لوگوں میں پیدا ہوگئی۔
4۔ گواہی طلب نہ کیے جانے کامطلب یہ ہے کہ گواہ گواہی دینے کو تیارہوں گے لیکن وہ اخلاقی طور پرکمزور ہنے کی وجہ سے قابل نہیں کیاجائے گا۔
5۔ مسلمان کو چاہیے کہ ایسے برےلوگوں میں شمار ہونےسے بچنے کی کوشش کرے جن کی پیش گوئی احادیث میں کی گئی ہے‘اوراپنے کردار کوبہتر بنائے تاکہ اس کی گواہی اورقسم قابل اعتماد ہو۔
1۔ میرا خیال رکھنا اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے تعلق کالحاظ رکھتےہوئے ان سے محبت اوران کا اخترام قائم رکھنا ۔
2۔تابعین اورتبع تابعین بھی قابل احترام ہیں لہذا ان سےمحبت اوران کا احترام ضروری ہے ۔
3۔ صحابہ تابعین اورتبع تابعین کےدورمیں خیر غالب اورشرمغلوب تھا۔ عام لوگوں میں اخلاق وکردار کی وہ خرابیاں نہیں تھیں جوبعد میں ظاہر ہوئیں ۔ ان زمانوں میں جو فکری غلطیاں پیداہوئیں ان میں بھی وہ شدت نہیں تھی جو بعد کے لوگوں میں پیدا ہوگئی۔
4۔ گواہی طلب نہ کیے جانے کامطلب یہ ہے کہ گواہ گواہی دینے کو تیارہوں گے لیکن وہ اخلاقی طور پرکمزور ہنے کی وجہ سے قابل نہیں کیاجائے گا۔
5۔ مسلمان کو چاہیے کہ ایسے برےلوگوں میں شمار ہونےسے بچنے کی کوشش کرے جن کی پیش گوئی احادیث میں کی گئی ہے‘اوراپنے کردار کوبہتر بنائے تاکہ اس کی گواہی اورقسم قابل اعتماد ہو۔