Book - حدیث 2359

كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ مَنْ وَجَدَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ سِلْعَةً فَأَدْرَكَ سِلْعَتَهُ بِعَيْنِهَا عِنْدَ رَجُلٍ وَقَدْ أَفْلَسَ وَلَمْ يَكُنْ قَبَضَ مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا فَهِيَ لَهُ وَإِنْ كَانَ قَبَضَ مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا فَهُوَ أُسْوَةٌ لِلْغُرَمَاءِ

ترجمہ Book - حدیث 2359

کتاب: فیصلہ کرنے سے متعلق احکام و مسائل باب: جسے دیوالیہ کے پاس اپنی چیز جوں کی توں مل جائے ( اس کا کیا حکم ہے ؟) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنی کوئی چیز بیچی، وہ چیز اسے دیوالیہ قرار دئے ہوئے شخص کے پاس بعینہ مل گئی جب کہ اس نے ابھی اس کی قیمت میں سے کچھ بھی وصول نہیں کیا تھا تو وہ اس (بیچنے والے) کی ہے۔ اور اگر اس نے قیمت کا کچھ حصہ وصول کر لیا ہو تو وہ بھی دوسرے قرض خواہوں کے حکم میں ہے۔
تشریح : 1۔ جب کسی شخص پر قرض اتنا زیادہ ہو جائے کہ وہ ا سے ادا کرنے سے قاصر ہو تواسے دیوالیہ قرار دینا مشروع ہے ۔ 2۔ دیوالیہ کے گھر کااسباب بیچ کر قرض خواہوں کا قرض واپس کیا جائےگا۔ 3۔ اگر دیوالیہ کے پاس قرض خواہ کی کوئی چیز موجود ہو تو اس کی دوصورتیں ہیں (الف) اگر دیوالیہ نے اس کی قیمت بالکل ادا نہیں کی توقرض خواہ اپنی چیز وصول کرے گا اور یوں سمجھا جائے گا کہ یہ چیز بیچی اور خریدی ہی نہیں گئی ۔ (ب) اگر مقروض نے اس چیز کی کل قیمت یا کچھ قیمت ادا کر دی ہے تواب یہ مقروض (دیوالیہ ) کی ملکیت ہے ۔ اسباب قرض خواہوں میں تقسیم کرتے ہوئے اگر یہ چیز اس قرض خواہ کے حصے میں آجائے تو بھی ٹھیک ہے نہیں تو جس کے حصے میں چلی جائے وہ لے لے گا ۔ یہ قرض خواہ دوسرے قرض خواہوں سے اس چیز کا زیادہ حق نہیں رکھتا۔ 1۔ جب کسی شخص پر قرض اتنا زیادہ ہو جائے کہ وہ ا سے ادا کرنے سے قاصر ہو تواسے دیوالیہ قرار دینا مشروع ہے ۔ 2۔ دیوالیہ کے گھر کااسباب بیچ کر قرض خواہوں کا قرض واپس کیا جائےگا۔ 3۔ اگر دیوالیہ کے پاس قرض خواہ کی کوئی چیز موجود ہو تو اس کی دوصورتیں ہیں (الف) اگر دیوالیہ نے اس کی قیمت بالکل ادا نہیں کی توقرض خواہ اپنی چیز وصول کرے گا اور یوں سمجھا جائے گا کہ یہ چیز بیچی اور خریدی ہی نہیں گئی ۔ (ب) اگر مقروض نے اس چیز کی کل قیمت یا کچھ قیمت ادا کر دی ہے تواب یہ مقروض (دیوالیہ ) کی ملکیت ہے ۔ اسباب قرض خواہوں میں تقسیم کرتے ہوئے اگر یہ چیز اس قرض خواہ کے حصے میں آجائے تو بھی ٹھیک ہے نہیں تو جس کے حصے میں چلی جائے وہ لے لے گا ۔ یہ قرض خواہ دوسرے قرض خواہوں سے اس چیز کا زیادہ حق نہیں رکھتا۔