Book - حدیث 2341

كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ مَنْ بَنَى فِي حَقِّهِ مَا يَضُرُّ بِجَارِهِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ

ترجمہ Book - حدیث 2341

کتاب: فیصلہ کرنے سے متعلق احکام و مسائل باب: اپنی زمین میں ایسی عمارت بنانا جس سے ہمسائے کو تکلیف ہو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔
تشریح : 1۔ مذکورہ دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے مثلاً :الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد کے محققین نے طویل بحث کے بعد اسے حسن قرار دیا ہے نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحةاور الارواءمیں اسے صحیح قرار دیا ہے دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ سندا ضعیف ہے اور معنا صحیح ہے لہٰذا مجموعی طور پر یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود متناً و معنا صحیح ہے جیسا کہ محققین کی جماعت نے کہا ہے ۔ تفصیل کے لیےدیکھیے : (الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد :5/55.والصحيحة رقم :250والارواء رقم :896 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم :2340) 2۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو تنگ کرے یا تکلیف پہنچائے اس لیے باہمی معاملات انصاف اور حسن اخلاق کی بنیاد پر انجام دینے چاہییں ۔ 3۔ اگر کوئی شخص نقصان پہنچانے کی کوشش کرے یا تنگ کرے تو اس کے مقابلے میں اسے تنگ کرنا یا نقصان پہنچانا درست نہیں بلکہ بزرگوں کے ذریعے سے پنچایت کے ذریعے سے یا شرعی عدالت کے ذریعے سے اس سے اپنا جائز حق وصول کرنا یا اسے اس کی شرارت سے روکنا چاہیے ۔ 4۔ عمارت اس انداز سے بنانا درست نہیں جس سے ہمسایوں کو تکلیف ہو مثلاً :اس قدر بلند عمارت بنانا جس سے ہمسایوں کے گھر میں نظر پڑتی ہو یا اس انداز سے تعمیر کرنا کہ راستہ رک جائے یا اتناتنگ ہو جائے کہ گزرنے والوں کو مشکل ہوتی ہو ۔ یہ سب منع ہے ۔ 5۔ بہت سے ایسے مسائل جو نبی اکرم ﷺ کے بعد ظاہر ہوئے ان کو اس اصول کی روشنی میں حل کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک کام سے انفرادی یا اجتماعی نقصان ہوتا ہو یا عوام کو تکلیف پہنچتی ہو تو اس سے اجتناب کرنا ضرور ی ہے نیز حکومت ان کاموں پر پابندی بھی لگا سکتی ہے ۔ 1۔ مذکورہ دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے مثلاً :الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد کے محققین نے طویل بحث کے بعد اسے حسن قرار دیا ہے نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحةاور الارواءمیں اسے صحیح قرار دیا ہے دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ سندا ضعیف ہے اور معنا صحیح ہے لہٰذا مجموعی طور پر یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود متناً و معنا صحیح ہے جیسا کہ محققین کی جماعت نے کہا ہے ۔ تفصیل کے لیےدیکھیے : (الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد :5/55.والصحيحة رقم :250والارواء رقم :896 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم :2340) 2۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو تنگ کرے یا تکلیف پہنچائے اس لیے باہمی معاملات انصاف اور حسن اخلاق کی بنیاد پر انجام دینے چاہییں ۔ 3۔ اگر کوئی شخص نقصان پہنچانے کی کوشش کرے یا تنگ کرے تو اس کے مقابلے میں اسے تنگ کرنا یا نقصان پہنچانا درست نہیں بلکہ بزرگوں کے ذریعے سے پنچایت کے ذریعے سے یا شرعی عدالت کے ذریعے سے اس سے اپنا جائز حق وصول کرنا یا اسے اس کی شرارت سے روکنا چاہیے ۔ 4۔ عمارت اس انداز سے بنانا درست نہیں جس سے ہمسایوں کو تکلیف ہو مثلاً :اس قدر بلند عمارت بنانا جس سے ہمسایوں کے گھر میں نظر پڑتی ہو یا اس انداز سے تعمیر کرنا کہ راستہ رک جائے یا اتناتنگ ہو جائے کہ گزرنے والوں کو مشکل ہوتی ہو ۔ یہ سب منع ہے ۔ 5۔ بہت سے ایسے مسائل جو نبی اکرم ﷺ کے بعد ظاہر ہوئے ان کو اس اصول کی روشنی میں حل کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک کام سے انفرادی یا اجتماعی نقصان ہوتا ہو یا عوام کو تکلیف پہنچتی ہو تو اس سے اجتناب کرنا ضرور ی ہے نیز حکومت ان کاموں پر پابندی بھی لگا سکتی ہے ۔