Book - حدیث 2322

كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ لَكَ بَيِّنَةٌ قُلْتُ لَا قَالَ لِلْيَهُودِيِّ احْلِفْ قُلْتُ إِذًا يَحْلِفُ فِيهِ فَيَذْهَبُ بِمَالِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا(آل عمران:77) إِلی آخر الْآيَةِ

ترجمہ Book - حدیث 2322

کتاب: فیصلہ کرنے سے متعلق احکام و مسائل باب: گواہی پیش کرنا مدعی کا فرض ہے اور مدعا علیہ کے ذمے قسم کھانا ہے حضرت اشعث بن قیس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: زمین کا ایک ٹکڑا میری اور یہودی کی مشترکہ ملکیت تھا۔ اس نے میرا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا تیرے پاس کوئی گواہ ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ نبی علیہ السلام نے یہودی سے کہا: قسم کھا۔ میں نے کہا: وہ تو (جھوٹی) قسم کھا کر میرا مال لے لے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (إِنَّ ٱلَّذِينَ يَشْتَرُ‌ونَ بِعَهْدِ ٱللَّهِ وَأَيْمَـٰنِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا) بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا، نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
تشریح : 1۔ جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے ۔2۔ کسی کی چیز ناجائز طور پر حاصل کرنے کے لیے اس پر جھوٹا دعوٰی کرنابہت بڑا جرم ہے ۔ 3۔ قاضی گواہوں اور شواہد کی بنا پر اپنی سمجھ کےمطابق فیصلہ کرنے کا مکلف ہے ۔ اگر اس نے اپنی سمجھ کےمطابق قرآن وحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ گناہ گار نہیں خواہ وہ فیصلہ حقیقت میں غلط ہی ہو لیکن اگر مدعی کو معلوم ہے کہ یہ دعوی جھوٹا ہے تو اس کے لیے کسی کی چیز لینا جائز نہیں خواہ اس کے حق میں فیصلہ ہو گیا ہو ۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بات نہیں کرےگا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور خوشنودی سےبات نہیں کرنے گا بلکہ غضب کےساتھ زجر و توبیخ کے طور پر یا محاسبے کے لیے بات کرے گا ۔ 5۔ کلام کرنا اللہ کی صفت ہے ۔ وہ جب چاہتا ہے جس سے چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے کلام فرماتا ہے تاہم اس کی کوئی صفت مخلوق کی صفت سے مشابہ نہیں ۔ 6۔ جن لوگوں کی نیکیاں زیادہ ہوں گی اور گناہ کم اور معمولی ہوں گے اللہ ان کے گناہ معاف کرکے انہیں پاک وصاف کردے گا جب کہ عادی مجرم اور بعض کبیرہ گناہوں کے مرتکب اس معافی سے محروم رہیں گے ۔ 1۔ جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے ۔2۔ کسی کی چیز ناجائز طور پر حاصل کرنے کے لیے اس پر جھوٹا دعوٰی کرنابہت بڑا جرم ہے ۔ 3۔ قاضی گواہوں اور شواہد کی بنا پر اپنی سمجھ کےمطابق فیصلہ کرنے کا مکلف ہے ۔ اگر اس نے اپنی سمجھ کےمطابق قرآن وحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ گناہ گار نہیں خواہ وہ فیصلہ حقیقت میں غلط ہی ہو لیکن اگر مدعی کو معلوم ہے کہ یہ دعوی جھوٹا ہے تو اس کے لیے کسی کی چیز لینا جائز نہیں خواہ اس کے حق میں فیصلہ ہو گیا ہو ۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بات نہیں کرےگا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور خوشنودی سےبات نہیں کرنے گا بلکہ غضب کےساتھ زجر و توبیخ کے طور پر یا محاسبے کے لیے بات کرے گا ۔ 5۔ کلام کرنا اللہ کی صفت ہے ۔ وہ جب چاہتا ہے جس سے چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے کلام فرماتا ہے تاہم اس کی کوئی صفت مخلوق کی صفت سے مشابہ نہیں ۔ 6۔ جن لوگوں کی نیکیاں زیادہ ہوں گی اور گناہ کم اور معمولی ہوں گے اللہ ان کے گناہ معاف کرکے انہیں پاک وصاف کردے گا جب کہ عادی مجرم اور بعض کبیرہ گناہوں کے مرتکب اس معافی سے محروم رہیں گے ۔