Book - حدیث 2315

كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ الْحَاكِمِ يَجْتَهِدُ فَيُصِيبُ الْحَقَّ صحیح حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ تَوْبَةَ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ قَالَ لَوْلَا حَدِيثُ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ اثْنَانِ فِي النَّارِ وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ رَجُلٌ عَلِمَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ جَارَ فِي الْحُكْمِ فَهُوَ فِي النَّارِ لَقُلْنَا إِنَّ الْقَاضِيَ إِذَا اجْتَهَدَ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ

ترجمہ Book - حدیث 2315

کتاب: فیصلہ کرنے سے متعلق احکام و مسائل باب: حاکم کا اجتہاد کر کے صحیح فیصلہ کرنا حضرت ابو ہاشم ؓ سے روایت ہے کہ اگر حضرت عبداللہ بن بریدہ ؓ کی وہ حدیث نہ ہوتی جو انہوں نے اپنے والد (حضرت بریدہ بن حصیب اسلمی ؓ) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قاضی تین (طرح کے) ہیں۔ دو جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔ (ایک) وہ آدمی (ہے) جس نے ھق معلوم کر لیا، پھر اس کے مطابق فیصلہ دیا تو وہ جنت میں جائے گا۔ (دوسرا) وہ آدمی (ہے) جس نے (حق سے) لا علم ہوتے ہوئے لوگوں میں فیصلہ کیا، وہ جہنم میں جائے گا۔ (تیسرا) وہ آدمی (ہے) جس نے فیصلہ کرتے ہوئے ظلم سے کام لیا، وہ بھی جہنم میں جائے گا۔ (اگر یہ حدیث نہ ہوتی) تو ہم کہتے کہ قاضی جب اجتہاد سے کام لے (اپنی پوری کوشش کرے) تو وہ جنتی ہے۔
تشریح : 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک یہ ورایت قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ شیخ البانی ﷫ نے اس روایت کی تحقیق میں کافی شافی بحث کی ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : (الارواء : 8/235،رقم :2614) بنابریں جج کا عہدہ بہت بڑی ذمے داری کا حامل ہے ۔ 2۔ جج کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ کرنے وقت اسے یقین ہو کہ صحیح بات یہ ہے پھر اس کے مطابق فیصلہ کرے ۔ 3۔ سرسری سماعت کے بعد فیصلہ دے دینا جب کہ معاملے کی پوری طرح چھان بین کرکے حق معلوم نہ کیا گیا ہو جائز نہیں ۔ 4۔جب یقین ہو جائے کہ حق فلاں فریق کا ہے پھر فیصلہ دوسرے کے حق میں دے دیا جائے یہ ظلم ہے اور اس کی سزا جہنم ہے ۔ اس نا انصافی کی وجہ بعض اوقات کوئی وقتی دنیوی مفاد ہوتا ہے ۔ یہ مفاد رشوت میں شامل ہے جس کی وجہ سے لعنت پڑتی ہے ۔ (دیکھیے حدیث :2313) 5۔ اجتہادی غلطی معاف ہونے کےباوجود حق تبدیل نہیں ہوتا اس لیے جب معلوم ہو جائے کہ غلطی ہو گئی ہے تو قاضی یا مجتہد کو اپنے فیصلے یا فتوے سے رجوع کر لینا چاہیے ۔ 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک یہ ورایت قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ شیخ البانی ﷫ نے اس روایت کی تحقیق میں کافی شافی بحث کی ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : (الارواء : 8/235،رقم :2614) بنابریں جج کا عہدہ بہت بڑی ذمے داری کا حامل ہے ۔ 2۔ جج کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ کرنے وقت اسے یقین ہو کہ صحیح بات یہ ہے پھر اس کے مطابق فیصلہ کرے ۔ 3۔ سرسری سماعت کے بعد فیصلہ دے دینا جب کہ معاملے کی پوری طرح چھان بین کرکے حق معلوم نہ کیا گیا ہو جائز نہیں ۔ 4۔جب یقین ہو جائے کہ حق فلاں فریق کا ہے پھر فیصلہ دوسرے کے حق میں دے دیا جائے یہ ظلم ہے اور اس کی سزا جہنم ہے ۔ اس نا انصافی کی وجہ بعض اوقات کوئی وقتی دنیوی مفاد ہوتا ہے ۔ یہ مفاد رشوت میں شامل ہے جس کی وجہ سے لعنت پڑتی ہے ۔ (دیکھیے حدیث :2313) 5۔ اجتہادی غلطی معاف ہونے کےباوجود حق تبدیل نہیں ہوتا اس لیے جب معلوم ہو جائے کہ غلطی ہو گئی ہے تو قاضی یا مجتہد کو اپنے فیصلے یا فتوے سے رجوع کر لینا چاہیے ۔