Book - حدیث 2310

كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ ذِكْرِ الْقُضَاةِ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَعْلَى وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَبْعَثُنِي وَأَنَا شَابٌّ أَقْضِي بَيْنَهُمْ وَلَا أَدْرِي مَا الْقَضَاءُ قَالَ فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اهْدِ قَلْبَهُ وَثَبِّتْ لِسَانَهُ قَالَ فَمَا شَكَكْتُ بَعْدُ فِي قَضَاءٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ

ترجمہ Book - حدیث 2310

کتاب: فیصلہ کرنے سے متعلق احکام و مسائل باب: قاضیوں کا ذکر حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن روانہ فرمایا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے روانہ فر رہے ہیں کہ ان کے فیصلے کروں، حالانکہ میں جوان ہوں (تجربہ کار نہیں)، مجھے تو معلوم نہیں فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے؟ حضرت علی ؓ نے بیان کیا: آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت دے اور اس کی زبان کو (صحیح بات پ) قائم فرما۔ وہ فرماتے ہیں: اس کے بعد مجھے دو شخصوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت کچھی شک پیش نہیں آیا۔
تشریح : (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے ‘ لہٰذا مذکورہ روایت سندا ً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : (الموسوعة الحديثة مسند احمد : 2/68 ،92،365،والاوراء للالباني ،رقم :2600) بنابري، ملك كى مختلف علاقوں اور شہروں میں قاضی مقرر کرنا مسلمانوں کےسربراہ (خلیفہ ) کا فرض ہے ۔ (2) کی منصب کے لیے اس شخص کو مقرر کرنا چاہیے جس میں اس سے متعلقہ فرائض انجام دینے کی اہلیت موجود ہو ۔ (3) اگر ایک شخص محسوس کرے کہ وہ ان فرائض کو ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا جو اس کے ذمے لگائے جا رہے ہیں تواسے حق حاصل ہے کہ وہ منصب قبول کرنے سے انکار کر دے ۔ (4) اپنے بزرگ یا سربراہ کے سامنے اپنی کمزوری یا مشکلات بیان کرنا حکم عدولی میں شمار نہیں ہوتا ۔ (5) جس شخص کو نئی ذمہ داری سونپی جائے ‘ اس کی مناسب رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حق میں دعا بھی اس کے لیے بہت مفید ہے ۔ (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے ‘ لہٰذا مذکورہ روایت سندا ً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : (الموسوعة الحديثة مسند احمد : 2/68 ،92،365،والاوراء للالباني ،رقم :2600) بنابري، ملك كى مختلف علاقوں اور شہروں میں قاضی مقرر کرنا مسلمانوں کےسربراہ (خلیفہ ) کا فرض ہے ۔ (2) کی منصب کے لیے اس شخص کو مقرر کرنا چاہیے جس میں اس سے متعلقہ فرائض انجام دینے کی اہلیت موجود ہو ۔ (3) اگر ایک شخص محسوس کرے کہ وہ ان فرائض کو ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا جو اس کے ذمے لگائے جا رہے ہیں تواسے حق حاصل ہے کہ وہ منصب قبول کرنے سے انکار کر دے ۔ (4) اپنے بزرگ یا سربراہ کے سامنے اپنی کمزوری یا مشکلات بیان کرنا حکم عدولی میں شمار نہیں ہوتا ۔ (5) جس شخص کو نئی ذمہ داری سونپی جائے ‘ اس کی مناسب رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حق میں دعا بھی اس کے لیے بہت مفید ہے ۔