Book - حدیث 2300

كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ مَنْ مَرَّ عَلَى مَاشِيَةِ قَوْمٍ، أَوْ حَائِطٍ هَلْ يُصِيبُ مِنْهُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَتَيْتَ عَلَى رَاعٍ فَنَادِهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ فَإِنْ أَجَابَكَ وَإِلَّا فَاشْرَبْ فِي غَيْرِ أَنْ تُفْسِدَ وَإِذَا أَتَيْتَ عَلَى حَائِطِ بُسْتَانٍ فَنَادِ صَاحِبَ الْبُسْتَانِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَإِنْ أَجَابَكَ وَإِلَّا فَكُلْ فِي أَنْ لَا تُفْسِدَ

ترجمہ Book - حدیث 2300

کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل باب: کیا کسی کے مویشیوں یا باغ کے پاس سے گزرنے ہوئے کچھ لیا جا سکتا ہے؟ حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: جب تو کسی چرواہے (کے ریوڑ) کے پاس سے گزرے تو اس (چرواہے) کو تین بار آواز دے۔ اگر وہ تجھے جواب دے تو ٹھیک ہے (اس سے اجازت لے لے) ورنہ خرابی کیے بغیر (بکری کا دودھ حسب ضرورت) پی لے۔ جب تیرا گزر کسی باغ کے پاس سے ہو تو باغ والے کو تین بار آواز دے۔ اگر وہ اجازت دے تو بہتر ورنہ (باغ کا پھل حسب ضرورت) کھا لے لیکن خرابی نہ کرنا۔
تشریح : (1) کسی کے کھیت ‘ باغ یا ریوڑ سے مالک کی اجازت کےبغیر کوئی چیز استعمال کرنا جائز نہیں ۔ (2) اگر مالک موجود نہ ہو تو بھی کوشش کی جائے مالک کو بلاکر اس سے اجازت لے لی جائے ۔ (3) اگر تین بار پکارنے کےبعد بھی مالک سے رابطہ نہ ہو سکے تو شدید ضرورت کےوقت بقدر ضرورت بلااجازت بھی پھل یا دودھ لیا جا سکتا ہے ۔ (4) یہ اجازت محدود ہے ۔ صرف وقتی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب دوسرے جائز ذرائع سے کھانا حاصل کرنا ممکن نہ ہو ۔ (5) خرابی سےمراد یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ چیز لے لی جائے ‘ یاپھل اتارتے وقت بے احتیاطی سے کچے پھل اتار کر ضائع کردیے جائیں ‘ یا درختوں کو نقصان پہنچایا جائے ‘ یا دودھ لینے کےبجائے بکری یا اس کا بچہ ذبح کر لیا جائے ۔ اس طرح کی تمام صورتیں ناجائز ہیں ۔ (6) کوئی ضرورت مندجس شخص کی کوئی چیز استعمال کر لیے اسے ثواب ملتا ہے ‘ خواہ اس کی اطلاع کےبغیر ہی استعمال کی گئی ہو ۔ ارشاد نبوی ہے : ’’جومسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا فصل کاشت کرتا ہے ‘ پھر اس میں سے کوئی پرندہ یا انسان یا جانور کچھ کھا لیتا ہے تو وہ اس شخص کےلیے صدقہ ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ (صحيح البخارى ،الحرث والمزارعة ،باب فضل الزرع والغرس اذا أكل منه.....، حديث:2320، و صحيح مسلم ، المساقاة ، باب فضل الغرس والزرع ،حديث: 1552) (7) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے ‘ لہٰذا حسب ضرورت اس حدیث کےمطابق عمل کیا جا سکتا ہے ۔ تفصیل کےلیے دیکھیے : (الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد : 17/98،99، والارواء للألبانى ،رقم :2521، والمشكاة ،رقم: 2953، التحقيق الثانى) (1) کسی کے کھیت ‘ باغ یا ریوڑ سے مالک کی اجازت کےبغیر کوئی چیز استعمال کرنا جائز نہیں ۔ (2) اگر مالک موجود نہ ہو تو بھی کوشش کی جائے مالک کو بلاکر اس سے اجازت لے لی جائے ۔ (3) اگر تین بار پکارنے کےبعد بھی مالک سے رابطہ نہ ہو سکے تو شدید ضرورت کےوقت بقدر ضرورت بلااجازت بھی پھل یا دودھ لیا جا سکتا ہے ۔ (4) یہ اجازت محدود ہے ۔ صرف وقتی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب دوسرے جائز ذرائع سے کھانا حاصل کرنا ممکن نہ ہو ۔ (5) خرابی سےمراد یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ چیز لے لی جائے ‘ یاپھل اتارتے وقت بے احتیاطی سے کچے پھل اتار کر ضائع کردیے جائیں ‘ یا درختوں کو نقصان پہنچایا جائے ‘ یا دودھ لینے کےبجائے بکری یا اس کا بچہ ذبح کر لیا جائے ۔ اس طرح کی تمام صورتیں ناجائز ہیں ۔ (6) کوئی ضرورت مندجس شخص کی کوئی چیز استعمال کر لیے اسے ثواب ملتا ہے ‘ خواہ اس کی اطلاع کےبغیر ہی استعمال کی گئی ہو ۔ ارشاد نبوی ہے : ’’جومسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا فصل کاشت کرتا ہے ‘ پھر اس میں سے کوئی پرندہ یا انسان یا جانور کچھ کھا لیتا ہے تو وہ اس شخص کےلیے صدقہ ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ (صحيح البخارى ،الحرث والمزارعة ،باب فضل الزرع والغرس اذا أكل منه.....، حديث:2320، و صحيح مسلم ، المساقاة ، باب فضل الغرس والزرع ،حديث: 1552) (7) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے ‘ لہٰذا حسب ضرورت اس حدیث کےمطابق عمل کیا جا سکتا ہے ۔ تفصیل کےلیے دیکھیے : (الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد : 17/98،99، والارواء للألبانى ،رقم :2521، والمشكاة ،رقم: 2953، التحقيق الثانى)