Book - حدیث 23

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ التَّوَقِّي فِي الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ الْبَطِينُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ مَا أَخْطَأَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ عَشِيَّةَ خَمِيسٍ إِلَّا أَتَيْتُهُ فِيهِ قَالَ فَمَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ بِشَيْءٍ قَطُّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ عَشِيَّةٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَكَسَ قَالَ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَهُوَ قَائِمٌ مُحَلَّلَةً أَزْرَارُ قَمِيصِهِ قَدْ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ قَالَ أَوْ دُونَ ذَلِكَ أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ أَوْ شَبِيهًا بِذَلِكَ

ترجمہ Book - حدیث 23

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: رسول اللہﷺسے حدیث بیان کرنے میں احتیاط کا بیان حضرت عمرو بن میمون ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ہر جمعرات کو بلا ناغہ دن ڈھلے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، میں نے انہیں کبھی یہ کہتے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں فرمایا ہے۔ ایک دن انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔ (اس کے بعد)سر جھکا لیا( خاموش ہوگئے) میں نے آپ کی طرف نظر اٹھائی تو دیکھا کہ وہ قمیص کے بٹن کھولے کھڑے ہیں، آنکھیں بھر آئی ہیں اور رگیں پھول گئی ہیں( حدیث بیان کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی) آخر فرمایا: آپ ﷺ نے یہی ارشاد فرمایا تھا، یا اس سے کم و بیش یا اس سے قریب یا اس سے ملتے جلتے الفاظ فرمائے تھے۔
تشریح : (1) عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ ہر جمعرات کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہفتہ وار علمی مجلس منعقد کیا کرتے تھے۔ صحیح بخاری مین مروی ہے کہ آپ سے ایک سے زیادہ بار علم و وعظ کی مجلس قائم کرنے کی درخواست کی گئی تو فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مناسب موقع اور وقت کے لحاظ سے نصیحت کرتے تھے تاکہ سامنعین اکتاہٹ کا شکار نہ ہو جائیں۔ (صحيه البخاري‘ العلم‘ باب من جعل لاهل العلم اياما معلومة‘ حديث:70) اس لیے علم سکھانے یا وعظ و نصیحت کرنے کے لیے ایک وقت مقرر کر لینا مناسب ہے، تاکہ لوگ آسانی سے استفادہ کر سکیں۔ (2) حدیث میں (عشية) کا لفظ ہے۔ جس کا ترجمہ ہم نے دن ڈھلے کیا ہے۔ عربی زبان میں (عشية) کا لفظ سورج ڈھلنے سے غروب آفتاب تک کے لیے بولا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس مجلس کا وقت ظہر کی نماز کے بعد مقرر ہو یا عصر کے بعد۔ والله اعلم (3) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث کی لفظا روایت سے اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ کوئی ایسا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے نہیں فرامای۔ تاہم بہت سے صحابہ کرام روایت باللفظ ہی کرتے تھے۔ حدیث کی روایت دونوں طرح درست ہے۔ روایت باللفظ افضل ہے، اور روایت بالمعنی میں احتیاط زیادہ ہے۔ (4) روایت حدیث کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اگر حدیث کے الفاظ پوری طرح یاد نہ ہوں تو حدیث بیان کر کے کہے: (او كما قال) یہ الفاظ، یا جو الفاظ آپ نے فرمائے جیسا کہ آئندہ روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل مذکور ہے۔ (1) عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ ہر جمعرات کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہفتہ وار علمی مجلس منعقد کیا کرتے تھے۔ صحیح بخاری مین مروی ہے کہ آپ سے ایک سے زیادہ بار علم و وعظ کی مجلس قائم کرنے کی درخواست کی گئی تو فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مناسب موقع اور وقت کے لحاظ سے نصیحت کرتے تھے تاکہ سامنعین اکتاہٹ کا شکار نہ ہو جائیں۔ (صحيه البخاري‘ العلم‘ باب من جعل لاهل العلم اياما معلومة‘ حديث:70) اس لیے علم سکھانے یا وعظ و نصیحت کرنے کے لیے ایک وقت مقرر کر لینا مناسب ہے، تاکہ لوگ آسانی سے استفادہ کر سکیں۔ (2) حدیث میں (عشية) کا لفظ ہے۔ جس کا ترجمہ ہم نے دن ڈھلے کیا ہے۔ عربی زبان میں (عشية) کا لفظ سورج ڈھلنے سے غروب آفتاب تک کے لیے بولا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس مجلس کا وقت ظہر کی نماز کے بعد مقرر ہو یا عصر کے بعد۔ والله اعلم (3) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث کی لفظا روایت سے اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ کوئی ایسا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے نہیں فرامای۔ تاہم بہت سے صحابہ کرام روایت باللفظ ہی کرتے تھے۔ حدیث کی روایت دونوں طرح درست ہے۔ روایت باللفظ افضل ہے، اور روایت بالمعنی میں احتیاط زیادہ ہے۔ (4) روایت حدیث کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اگر حدیث کے الفاظ پوری طرح یاد نہ ہوں تو حدیث بیان کر کے کہے: (او كما قال) یہ الفاظ، یا جو الفاظ آپ نے فرمائے جیسا کہ آئندہ روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل مذکور ہے۔