كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ مَا لِلْمَرْأَةِ مِنْ مَالِ زَوْجِهَا صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ قَالُوا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ لَا يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَوَلَدِي إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْ مَالِهِ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ فَقَالَ خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ
کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: عورت اپنے خاوند کے مال سے کیا لے سکتی ہے ؟
ام المومنین حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے کہ حضرت ہندبنت عتبہ بن ربیعہ ؓا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! (میرے شوہر) حضرت ابو سفیان پیسہ سنبھال کر رکھنے والے آدمی ہیں۔ وہ مجے اتنا (خرچ) نہیں دیتے جو مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو، سوائے اس کے کہ میں ان کی لا علمی میں ان کے مال میں سے کچھ لے لوں (تن گزارہ ہو سکتا ہے) تو آپ نے فرمایا: اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو مناسب حد تک کافی ہو۔
تشریح :
(1) بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنا خاوند کا فرض ہے ۔
(2) مسئلہ دریافت کرتے وقت حقیقت حال واضح کرنے کے لیے کسی کا عیب بیان کیا جائے تو یہ غیبت میں شامل نہیں ‘ اس لیےجائز ہے ۔
(3) جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
(4) ’’مناسب حد‘‘ کا تعین حالات ‘ ماحول ‘ خاوند کی مالی حالت اور ضرورت کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے ۔
(1) بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنا خاوند کا فرض ہے ۔
(2) مسئلہ دریافت کرتے وقت حقیقت حال واضح کرنے کے لیے کسی کا عیب بیان کیا جائے تو یہ غیبت میں شامل نہیں ‘ اس لیےجائز ہے ۔
(3) جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
(4) ’’مناسب حد‘‘ کا تعین حالات ‘ ماحول ‘ خاوند کی مالی حالت اور ضرورت کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے ۔