Book - حدیث 2276

كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ التَّغْلِيظِ فِي الرِّبَا صحیح حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آيَةُ الرِّبَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا لَنَا فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ

ترجمہ Book - حدیث 2276

کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل باب: سود کا گناہ بہت بڑا ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سب سے آخر میں سود کی آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ اس کی تشریح کرنے سے پہلے فوت ہو گئے، اس لیے سود کو بھی چھوڑ دو اور مشکوک صورت سے بھی پرہیز کرو۔
تشریح : 1)حلال و حرام کے مسائل میں سود کےمسائل آخر میں نازل ہوئے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے سود کی تشریح فرمائی اور اس کی مختلف رائج صورتوں سے واضح طور پر منع فرما دیا ‘ اس کے باجود بعض صورتیں ایسی ہو سکتی ہیں جوبعد میں ایجاد ہوں اور علماء کو ان کےبارے میں قیاس کرنا پڑے اس لیے علماء کو ان معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر واضح فتویٰ جاری کرنا چاہیے ۔ (3) جب کوئی تجارتی معاملہ ایسا ہو کہ اس کے جائز یا ناجائز ہونےمیں شک ہو تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے جب تک علمائے کرام سے واضح رہنمائی نہ لے لی جاتی ۔ (4) تجارت کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی مشکوک کام سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ (5) مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سندا ً ضعیف قرار دیاہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح اور حسن قرار دیا ہے نیز صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ﷜ سے بھی مروی ہے کہ سب سے آخر میں سود کی یت ہی نازل ہوئی ۔ دیکھیے : (صحیح البخاری ،التفسیر ، حدیث :4544) لہٰذا اس روایت سے اور اس کے ہم معنی دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سندا ً ضعیف ہونے کےباوجود قابل حجت اور قابل عمل ہے ۔ مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے : ( الموسوعة الحديثة مسند الامام احمد : 1/361، وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عواد،رقم:2276) 1)حلال و حرام کے مسائل میں سود کےمسائل آخر میں نازل ہوئے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے سود کی تشریح فرمائی اور اس کی مختلف رائج صورتوں سے واضح طور پر منع فرما دیا ‘ اس کے باجود بعض صورتیں ایسی ہو سکتی ہیں جوبعد میں ایجاد ہوں اور علماء کو ان کےبارے میں قیاس کرنا پڑے اس لیے علماء کو ان معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر واضح فتویٰ جاری کرنا چاہیے ۔ (3) جب کوئی تجارتی معاملہ ایسا ہو کہ اس کے جائز یا ناجائز ہونےمیں شک ہو تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے جب تک علمائے کرام سے واضح رہنمائی نہ لے لی جاتی ۔ (4) تجارت کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی مشکوک کام سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ (5) مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سندا ً ضعیف قرار دیاہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح اور حسن قرار دیا ہے نیز صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ﷜ سے بھی مروی ہے کہ سب سے آخر میں سود کی یت ہی نازل ہوئی ۔ دیکھیے : (صحیح البخاری ،التفسیر ، حدیث :4544) لہٰذا اس روایت سے اور اس کے ہم معنی دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سندا ً ضعیف ہونے کےباوجود قابل حجت اور قابل عمل ہے ۔ مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے : ( الموسوعة الحديثة مسند الامام احمد : 1/361، وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عواد،رقم:2276)