كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ صَخْرٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا، لَمْ يَأْتِهِ إِلَّا لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ أَوْ يُعَلِّمُهُ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ»
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: علماء کی فضیلت اور حصول علم کی ترغیب
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:’’ جو شخص میری اس مسجد میں آئے اور اس کا ارادہ صرف کوئی اچھی بات سیکھنا یا سکھانا ہو( کوئی دنیوی غرض نہ ہو) تو اس کا درجہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا سا ہے۔ اور جو شخص کسی اور مقصد کے لئے( مسجد میں) آیا۔ وہ اس آدمی کی طرح ہے جس کی نظر کسی اور کے مال پر ہو۔‘‘
تشریح :
(1) مسجد کی تعمیر کا مقصد جہاں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے، وہیں اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ دین کی نشرواشاعت کا مرکز اور علم سیکھنے سکھانے کا ادارہ ہے۔ مسجد نبوی بھی علم کا ایک عظیم مرکز تھی، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کتاب و حکمت کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے اور تربیت و تزکیہ نفس کا بھی، اس لیے جب کوئی مسلمان مسجد میں آتا ہے تو اس کی نیت انہی بلند مقاصد کے حصول کی ہونی چاہیے ، تبھی وہ مسجد کے بابرکت ماحول سے صحیح استفادہ کر سکے گا۔ (2) مسجد میں غیر ضرروی باتیں اور لڑائی جھگڑے مسجد کے ادب کے منافی ہیں، جن سے مسجد کا تقدس متاثر ہوتا ہے چنانچہ ایسی حرکتیں کرنے والا، نہ صرف مسجد کی برکات سے محروم رہتا ہے بلکہ گناہ گار بھی شمار ہوتا ہے۔ (3) علوم دینیہ کا سلسلہ درس و تدریس بھی ایک قسم کا جہاد ہے کیونکہ قتال فی سبیل اللہ کا مقصد لوگوں کو کفر کی گمراہی سے نکال کر اسلام کے نور سے مستفید کرنا ہے۔ چنانچہ اگر علم و تعلیم کے مراکز موجود نہیں ہوں گے تو غیر مسلموں اور نو مسلموں کو اسلام کی تعلیم دینا مشکل ہو جائے گا اور جہاد کا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ (4) جو شخص مسجد میں نہ عبادت و ذکر الہی کے لیے آیا، نہ علم سیکھنے سکھانے کے لیے، اس نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا، جس طرح کوئی شخص بازار میں جا کر نہ کچھ خریدتا ہے، نہ بیچتا ہے، اسے کوئی دنیوی منافع حاصل نہیں ہوتا، بازار میں جو سامان پڑا ہے وہ اس کا نہیں، محض اسے دیکھ لینے سے اس کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بازار سے کوئی بھی دنیوی فائدہ ھاصل کیے بغٰر لوٹ آتا ہے۔ اسی طرح مسجد میں بے مقصد جا کر بیٹھ رہنے والا آدمی دینی فوائد سے محروم رہتا ہے۔
(1) مسجد کی تعمیر کا مقصد جہاں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے، وہیں اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ دین کی نشرواشاعت کا مرکز اور علم سیکھنے سکھانے کا ادارہ ہے۔ مسجد نبوی بھی علم کا ایک عظیم مرکز تھی، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کتاب و حکمت کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے اور تربیت و تزکیہ نفس کا بھی، اس لیے جب کوئی مسلمان مسجد میں آتا ہے تو اس کی نیت انہی بلند مقاصد کے حصول کی ہونی چاہیے ، تبھی وہ مسجد کے بابرکت ماحول سے صحیح استفادہ کر سکے گا۔ (2) مسجد میں غیر ضرروی باتیں اور لڑائی جھگڑے مسجد کے ادب کے منافی ہیں، جن سے مسجد کا تقدس متاثر ہوتا ہے چنانچہ ایسی حرکتیں کرنے والا، نہ صرف مسجد کی برکات سے محروم رہتا ہے بلکہ گناہ گار بھی شمار ہوتا ہے۔ (3) علوم دینیہ کا سلسلہ درس و تدریس بھی ایک قسم کا جہاد ہے کیونکہ قتال فی سبیل اللہ کا مقصد لوگوں کو کفر کی گمراہی سے نکال کر اسلام کے نور سے مستفید کرنا ہے۔ چنانچہ اگر علم و تعلیم کے مراکز موجود نہیں ہوں گے تو غیر مسلموں اور نو مسلموں کو اسلام کی تعلیم دینا مشکل ہو جائے گا اور جہاد کا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ (4) جو شخص مسجد میں نہ عبادت و ذکر الہی کے لیے آیا، نہ علم سیکھنے سکھانے کے لیے، اس نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا، جس طرح کوئی شخص بازار میں جا کر نہ کچھ خریدتا ہے، نہ بیچتا ہے، اسے کوئی دنیوی منافع حاصل نہیں ہوتا، بازار میں جو سامان پڑا ہے وہ اس کا نہیں، محض اسے دیکھ لینے سے اس کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بازار سے کوئی بھی دنیوی فائدہ ھاصل کیے بغٰر لوٹ آتا ہے۔ اسی طرح مسجد میں بے مقصد جا کر بیٹھ رہنے والا آدمی دینی فوائد سے محروم رہتا ہے۔