كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا تَمْرًا صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرِيَّةِ بِخَرْصِهَا تَمْرًا قَالَ يَحْيَى الْعَرِيَّةُ أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ ثَمَرَ النَّخَلَاتِ بِطَعَامِ أَهْلِهِ رُطَبًا بِخَرْصِهَا [تَمْرًا]
کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: عریہ کو اس کے اندازے کے مطابق خشک کھجور کے عوض فروخت کرنا
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے حضرت زید بن ثابت ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے عریہ کو اس کے اندازے کے برابر خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے کی اجازت دی۔
حضرت یحییٰ بن سعید ؓ نے فرمایا: عرایا کا یہ مطلب ہے کہ آدمی کھجور کے چند درکٹوں کا تازہ پھل اندازے سے اپنے گھر کی خشک کھجوروں کے عوض خرید لے۔
تشریح :
(1) عام قانون یہی ہے کہ کھجور کے بدلے میں کھجور کا تبادلہ دست بدست اور برابر برابر ہونا چاہیے لیکن ’’عرایا‘‘ کا مسئلہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے ۔ (2) امام مالک نے عرایا کی تفسیر یوں کی ہے : ’’عریہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کھجور کا ایک درخت (پھل کھانے کے لیے )دیتا ہے ‘ پھر اس کے (بار بار ) باغ میں آنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ ( اسے دیا ہوا وہ ) درخت خشک کھجوروں عوض خرید لے ۔ (صحیح البخاری ،البیوع ،باب تفسیر العرایا ،قبل حدیث :2192)اس کا طریقہ یہ کہ درخت کے پھل کا اندازہ لگایا جائے کہ خشک ہو کر اتنے من ہوگا ‘ پھر اتنے من خشک کھجوریں اسے دے کر درخت واپس لے لیا جائے ۔ اس صورت میں خشک کھجوروں کےعوض تازہ کھجوریں (درخت پر لگی ہوئی ) خریدی گئی ہیں اور خشک کھجوریں ماپ تول کر دی گئی ہیں ۔ یہ جائز ہے بشرطیکہ ان کی مقدار پانج وسق (بیس من ) سے کم ہو۔
(1) عام قانون یہی ہے کہ کھجور کے بدلے میں کھجور کا تبادلہ دست بدست اور برابر برابر ہونا چاہیے لیکن ’’عرایا‘‘ کا مسئلہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے ۔ (2) امام مالک نے عرایا کی تفسیر یوں کی ہے : ’’عریہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کھجور کا ایک درخت (پھل کھانے کے لیے )دیتا ہے ‘ پھر اس کے (بار بار ) باغ میں آنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ ( اسے دیا ہوا وہ ) درخت خشک کھجوروں عوض خرید لے ۔ (صحیح البخاری ،البیوع ،باب تفسیر العرایا ،قبل حدیث :2192)اس کا طریقہ یہ کہ درخت کے پھل کا اندازہ لگایا جائے کہ خشک ہو کر اتنے من ہوگا ‘ پھر اتنے من خشک کھجوریں اسے دے کر درخت واپس لے لیا جائے ۔ اس صورت میں خشک کھجوروں کےعوض تازہ کھجوریں (درخت پر لگی ہوئی ) خریدی گئی ہیں اور خشک کھجوریں ماپ تول کر دی گئی ہیں ۔ یہ جائز ہے بشرطیکہ ان کی مقدار پانج وسق (بیس من ) سے کم ہو۔