Book - حدیث 225

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ، إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ»

ترجمہ Book - حدیث 225

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: علماء کی فضیلت اور حصول علم کی ترغیب سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس نے کسی مسلمان کی ایک دنیاوی پریشانی دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کرے گا، اور جس نے مسلمان کا پردہ رکھا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کا پردہ رکھے گا۔ اور جس نے کسی مشکل میں مبتلا شخص پر آسانی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس پر آسانی فرمائے گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں مشغول رہتا ہے ،اور جو شخص علم کی تلاش میں راستہ طے کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے ، اور جب بھی کچھ لوگ اللہ کے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور اسے باہم سیکھتے سکھاتے ہیں ، تو فرشتے ان کے گرد حلقہ کر لیتے ہیں، ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، ان پر رحمت سایہ فگن ہو جاتی ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس والے( مقرب فرشتوں) میں ان کا ذکر فرماتا ہے۔ اور جس کا عمل اسے پیچھے کر دے، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘‘
تشریح : (1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کا عمل ہوتا ہے اسی طرح کا بدلہ ملتا ہے۔ (2) اعمال کی جزا و سزا صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ کچھ جزا و سزا دنیا میں بھی مل جاتی ہے۔ (3) اس میں مختلف نیک اعمال کی ترغیب ہے، مثلا: پریشانی کے موقع پر مسلمان کی مدد کرنا، اس کے عیوب کی پردہ پوشی اور اس کے لیے آسانیاں مہیا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات کی بنیاد محبت اور خیر خواہی پر ہونی چاہیے۔ (4) بھائی کی مدد صرف نیک کام میں کرنا چاہیے، غلط کام میں مدد کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے اس غلط کام اور گناہ سے روکا جائے۔ (5) مسلمان کی پردہ پوشی کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کوئی خامی، کوتای، عیب یا غلطی جو عام لوگوں کو معلوم نہیں، اس کی تشہیر نہ کی جائے بلکہ اسے تنہائی میں سمجھایا جائے تاکہ اس کی اصلاھ ہو اجئے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے جرائم پر پردہ ڈال کر اس کے حق میں جھوٹی گواہی دی جائے۔ (6) حصول علم کی راہ مین پیش آنے والی مشکلات درجات کی بلندی کا باعث اور دخول جنت کا ژریعہ ہیں، لہذا ان مشکلات سے گھبرا کر طلب علم سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان پر صبر کرنا چاہیے۔ (7) علمی حلقہ جات اللہ کی خصوصی رحمت کے مورد ہیں، لہذا درس قرآن و حدیث کی مجلس ہو یا مدارس دینیہ میں کسی علم کی کلاس، اس میں حاضری کا اہتمام کرنا چاہیے اور غیر حاضری سے زیادہ سے زیادہ اجتناب کرنا چاہیے۔ (8) طالب علم کا یہ شرف بہت عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ مقرب فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا اور خوشنودی کا اظہار فرماتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حصول علم، تقرب الہی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ (9) اللہ کے ہاں مقام و مرتبے کا دارومدار ایمان و عمل پر ہے، حسب و نسب اور قوم و قبیلہ پر نہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال حبشی، صہیب رومی اور سلمان فارسی رضی اللہ عنھم جیسے صحابہ بلند مراتب پر فائز ہو گئے، حالانکہ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبی یا خاندانی تعلق نہیں تھا۔ لیکن ابوجہل اور ابولہب جیسے افراد محروم رہ گئے، حالانکہ وہ نسبی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت قریب تھے۔ (1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کا عمل ہوتا ہے اسی طرح کا بدلہ ملتا ہے۔ (2) اعمال کی جزا و سزا صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ کچھ جزا و سزا دنیا میں بھی مل جاتی ہے۔ (3) اس میں مختلف نیک اعمال کی ترغیب ہے، مثلا: پریشانی کے موقع پر مسلمان کی مدد کرنا، اس کے عیوب کی پردہ پوشی اور اس کے لیے آسانیاں مہیا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات کی بنیاد محبت اور خیر خواہی پر ہونی چاہیے۔ (4) بھائی کی مدد صرف نیک کام میں کرنا چاہیے، غلط کام میں مدد کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے اس غلط کام اور گناہ سے روکا جائے۔ (5) مسلمان کی پردہ پوشی کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کوئی خامی، کوتای، عیب یا غلطی جو عام لوگوں کو معلوم نہیں، اس کی تشہیر نہ کی جائے بلکہ اسے تنہائی میں سمجھایا جائے تاکہ اس کی اصلاھ ہو اجئے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے جرائم پر پردہ ڈال کر اس کے حق میں جھوٹی گواہی دی جائے۔ (6) حصول علم کی راہ مین پیش آنے والی مشکلات درجات کی بلندی کا باعث اور دخول جنت کا ژریعہ ہیں، لہذا ان مشکلات سے گھبرا کر طلب علم سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان پر صبر کرنا چاہیے۔ (7) علمی حلقہ جات اللہ کی خصوصی رحمت کے مورد ہیں، لہذا درس قرآن و حدیث کی مجلس ہو یا مدارس دینیہ میں کسی علم کی کلاس، اس میں حاضری کا اہتمام کرنا چاہیے اور غیر حاضری سے زیادہ سے زیادہ اجتناب کرنا چاہیے۔ (8) طالب علم کا یہ شرف بہت عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ مقرب فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا اور خوشنودی کا اظہار فرماتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حصول علم، تقرب الہی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ (9) اللہ کے ہاں مقام و مرتبے کا دارومدار ایمان و عمل پر ہے، حسب و نسب اور قوم و قبیلہ پر نہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال حبشی، صہیب رومی اور سلمان فارسی رضی اللہ عنھم جیسے صحابہ بلند مراتب پر فائز ہو گئے، حالانکہ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبی یا خاندانی تعلق نہیں تھا۔ لیکن ابوجہل اور ابولہب جیسے افراد محروم رہ گئے، حالانکہ وہ نسبی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت قریب تھے۔